sharab poetry in urdu
In Urdu poetry, there’s a special flavor known as sharab poetry in urdu. But it’s not just about drinks; it’s about feelings like love, desire, and sadness. Poets like Mir Taqi Mir and Faiz Ahmed Faiz have beautifully painted these emotions in their poems. They talk about the joy of love and the pain of separation.
Sharab poetry takes us on a journey through our deepest emotions, helping us understand love and life better. Let’s explore the enchanting world of Sharab poetry together and raise a toast to its mesmerizing charm! Also read interesting poetry.
دل و نگاہ پہ کیوں چھا رہا ہے اے ساقی
یہ تیری آنکھ کا نشہ شراب سے پہلے
dil o nigah pay kyun chhaa raha hai ae saqi
yeh teri aankh ka نشہ شراب سے پہلے
نماز کیسی کہاں کا روزہ ابھی میں شغل شراب میں ہوں
خدا کی یاد آئے کس طرح سے بتوں کے قہر و عتاب میں ہوں
namaz kaisi kahan ka roza abhi mein shugal sharaab mein hon
kkhuda ki yaad aaye kis terhan se buton ke قہر و عتاب میں ہوں
شراب کا شغل ہو رہا ہے بغل میں پاتا ہوں میں کسی کو
میں جاگتا ہوں کہ سو رہا ہوں خیال میں ہوں کہ خواب میں ہوں
sharaab ka shugal ho raha hai baghal mein paata hon mein kisi ko
mein jaagta hon ke so raha hon khayaal mein ہوں کہ خواب میں ہوں
نہ چھیڑ اس وقت مجھ کو زاہد نہیں یہ موقع ہے گفتگو کا
سوار جاتا ہے وہ شرابی میں حاضر اس کی رکاب میں ہوں
کبھی شرابی کبھی نمازی کبھی ہوں میں رند گاہ زاہد
خدا کا ڈر ہے بتوں کا کھٹکا عجب طرح کے عذاب میں ہوں
kabhi sharaabii kabhi namazi kabhi hon mein rind gaah Zahid
kkhuda ka dar hai buton ka khatka ajab طرح کے عذاب میں ہوں
sharab poetry in urdu
مشقتی ہیں ترے کاخ و کوئے ہجر کے ہم
شراب ہجر پیالے میں بھر کے دیکھتے ہیں
مشقتی hain tre kakh o koye hijar ke hum
sharaab hijar pyaale mein بھر کے دیکھتے ہیں
عجب بھڑک ہے شرابوں کی اور آنکھوں کی
بلا ہے حسن بدکنے لگے ہیں بن اپنے
ajab bharak hai sharabon ki aur aankhon ki
bulaa hai husn بدکنے lagey ہیں بن اپنے
ہوا بہشت کے باغوں کی زلف زلف پھرے
تری لحد ترے بالیں کے گرد جوئے شراب
sun-hwa bahisht ke baghoon ki zulff zulff phiray
tri lehad tre balen ke گرد جوئے شراب
اگر کیف سخن میرا نہال تاک کو پہنچے
صراحی شاخ بن جاوے شراب انگور سے ٹپکے
gir Kaif sukhan mera nihaal taak ko puhanche
suraahi shaakh ban jaave شراب انگور سے ٹپکے
جھومنے لگتے ہیں اس کو دیکھتے ہی باغ میں
ایسے لگتا ہے پرندے بھی شرابی ہو گئے
jhoomnay lagtay hain is ko dekhte hi baagh mein
aisay lagta hai parinday بھی شرابی ہو گئے
مل رہے تھے دست الفت سے مجھے جام شراب
مہرباں تھا وہ بت نا مہرباں کل رات کو
mil rahay thay dast ulfat se mujhe jaam sharaab
mehrbaan tha woh buut na مہرباں کل رات کو
میں تو پیتا ہوں فقط گلنار ہونٹوں کی شراب
سبح اسم ربک الاعلی رہے ورد زباں
mein to peeta hon faqat Gulnar honton ki sharaab
سبح ism ربک الاعلی رہے ورد زباں
یہ میری پیاس کے ساغر تیرے لبوں کی شراب
رواج و رسم محبت کا معجزہ ہوگا
yeh meri pyaas ke saghar tairay labon ki sharaab
rivaaj o rasam mohabbat کا معجزہ ہوگا
ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے
مطرب رباب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے
saqi sharaab laa ke tabiyat udaas hai
Mutarrab Rubab utha ke طبیعت اداس ہے
ظلمتوں سے نہ ڈر کہ رستے میں
روشنی ہے شراب خانے کی
zulmaton se nah dar ke raste mein
roshni hai شراب خانے کی
ایک دن اے عدمؔ نہ پی تو کیا
روز شغل شراب کرتے ہو
aik din ae عدمؔ nah pi to kya
roz shugal شراب کرتے ہو
nasha shayari 2 lines urdu
فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری بادہ خانے ترے
faqeero ka jumghat ghari do ghari
sharabain tri بادہ خانے ترے
یہ کائنات اور اتنی شراب آلودہ
کسی نے اپنا خمار نظر بکھیرا تھا
yeh kaayenaat aur itni sharaab aaloda
kisi ne apna khumar نظر بکھیرا تھا
باتیں کرو نگار و بہار و شراب کی
اذکار شرع و دیں نہ کرو ہم نشے میں ہیں
baatein karo nigaar o bahhar o sharaab ki
azkar shara o den nah karo ہم نشے میں ہیںہ
ترا تبسم فروغ ہستی تری نظر اعتبار مستی
بہار اقرار کر رہی ہے شراب ایمان لا رہی ہے
tra tabassum farogh hasti tri nazar aitbaar masti
bahhar iqraar kar rahi hai شراب ایمان لا رہی ہے
اگر کوئی خاص چیز ہوتی تو خیر دامن بھگو بھی لیتے
شراب سے تو بہت پرانے مذاق کی باس آ رہی ہے
agar koi khaas cheez hoti to kher daman bigho bhi letay
sharaab se to bohat puranay مذاق کی باس آ رہی ہے
ضیا ہے شاہد و شمع و شراب سے اس کی
فروغ محفل روحانیاں کی بات کرو
zia hai Shahid o shama o sharaab se is ki
farogh mehfil روحانیاں کی بات کرو
nasha sharab poetry
یہ تو بجا کہ اب وہ کیف جام شراب میں نہیں
ساقی مے کے غمزۂ ہوش ربا کو کیا ہوا
تسکین خلق ساقی کو پیتا ہوں میں شراب
میری نظر میں ساقی ہے پیمانہ تو نہیں
تو بے نقاب ہے اے مہ یہ ہیں شراب کے دن
کہ ماہتاب کی راتیں ہیں آفتاب کے دن
ترے لبوں سے ہے روکش عجب طرح کے ہیں مست
لگے ہیں دن اسے کیوں کر پھریں شراب کے دن
نصیب اس کے شراب بہشت ہووے مدام
ہوا ہے جو کوئی موجد شراب خانے کا
شراب لعل لب دلبراں ہے مجھ کوں مباح
اب عیش و عشرت دونوں جہاں ہے مجھ کوں مباح
شراب و شاہد و خلوت سیاہ مستی ہوش
اسی جہان منیں بیگماں ہے مجھ کوں مباح
قلم امانت حق تھا سو لکھ دیا میں نے
شگفتہ لمس لبوں کو شراب آنکھوں کو
یوں تو اک جرعۂ شراب ہوں میں
گردش وقت کا جواب ہوں میں
خیال لمس کا کار ثواب جیسا تھا
اثر صدا کا بھی موج شراب جیسا تھا
تمام رات وہ پہلو کو گرم کرتا رہا
کسی کی یاد کا نشہ شراب جیسا تھا
تجھ بن جگہ شراب کی پیتے تھے دم بدم
پیالے سیں گل کے خون جگر کا چمن میں ہم
لگا ہے آپ سیں اے جاں ترے عاشق کا دل رہ رہ
کرے ہے مست کوں بے خود شراب آہستہ آہستہ
تجھ اوپر خون بے گناہوں کا
چڑھ رہا ہے شراب کی سی طرح
جو نشہ جوانی کا اترے گا تو کھینچیں گے خمار
اب تو خوباں سب شراب حسن کے سرشار ہیں
سیر بہار حسن ہی انکھیوں کا کام جان
دل کوں شراب شوق کا ساغر مدام جان
جنوں کے جام کوں لے شیشۂ شراب کو توڑ
خرد گلی سیں پری پیکراں کی بیدل جا
اس وقت میں پیارے ہم کوں شراب دیجے
دیکھو تو کیا ہوا ہے ریجھو تو کیا گھٹا ہے
ہوا ہے آگ کا شعلہ شراب پیالے میں
لگا ہے جان لباں کوں مرے دہن تجھ بن
کیا جانے ہماری تلخ کامی
ہے ذائقۂ شراب کیسا
عاشق تھے شہر میں جو پرانے شراب کے
ہیں ان کے دل میں وسوسے اب احتساب کے
شراب ارغوانی بھی پیوں میں خود تو پانی ہے
پلائے تو جو پانی بادۂ شیراز ہے ساقی
عالم یہی رہا تو نگاہوں کا ذکر کیا
نیت بھی ڈوب جائے گی جام شراب میں
افقرؔ یہ سب ہیں ان کے تبسم کی شوخیاں
رنگینیاں جو بن گئیں موج شراب میں
شراب پی کے بھی مست شراب ہو نہ سکا
ترا خراب محبت خراب ہو نہ سکا
ابھی محبت کی ابتدا ہے دلوں کے ارماں نکل رہے ہیں
ابھی ہے آغاز مستیوں کا شراب کے دور چل رہے ہیں
میکدے میں توبہ کا کس کو ہوش رہتا ہے
اور ہر نظر تیری جب شراب ہو جائے
کسی طرح تو گھٹے دل کی بے قراری بھی
چلو وہ چشم نہیں کم سے کم شراب تو ہو
شراب نوشی سے میں دور بھاگتا ہوں مگر
کوئی نظر سے بھلائے تو کیا کیا جائے
تھی میری آنکھوں کی قسمت میں تشنگی لکھی
وہ اپنی دید کی مجھ کو شراب کیا دیتا
غزل کا حسن ہے اور گیت کا شباب ہے وہ
نشہ ہے جس میں سخن کا وہی شراب ہے وہ
تیری قربت کی خمار آگینی
رت شرابوں میں سنی ہو جیسے
گھٹا وہ چھائی وہ ابر اٹھا یہی تو ہے وقت مے کشی کا
بلاؤ شاعرؔ کو ہے کہاں وہ شراب شیشے سے ڈھل رہی ہے
ملال یہ ہے کہ ساقی تو بن گئے صاحب
شراب ہاتھ میں ہے اور پلا نہیں سکتے
یہ مے کشی کا سبق ہے نئے نصاب کے ساتھ
کہ خون دل ہمیں پینا ہے اب شراب کے ساتھ
خمار جس کا ابھی تک ہے سر میں برقیؔ کے
شراب شوق کا چسکا لگا گیا اک شخص