Amazing Samandar poetry in urdu
Welcome to the magical world of Urdu literature where words flow like an endless sea. Today we are going to explore Samandar poetry in urdu, a genre that captures the ocean and its vast unknown. In Urdu Samandar means sea and this poetry is like the sea, it has nature, spirituality, and all the facets of human experience.
Join us as we dive into the sea poetry, its features, famous poets, and the imagery that makes it a part of Urdu literature. Whether you are a poetry lover or new to this genre, get ready to experience the depth of attitude of Urdu poetry.
سمندروں میں کبھی بادلوں کے خیموں میں
اک آگ مجھ کو لئے پھر رہی ہے برسوں سے
Samandar poetry in urdu
میں سمندر کو گھر میں لے آیا
میرے در پر پڑا رہا صحرا
میں ترے لطف سے نادم ہوں مگر عرض ہے یہ
اب سمندر سے بنانا نہیں ساحل مجھ کو
ڈوب جانا مرا مقدر تھا
اس کی آنکھیں نہ تھیں سمندر تھا
میں پیاسا تھا مگر ہونٹوں سے محروم
سمندر تھا مگر ساحل نہیں تھا
بے نہایت سمندروں کا سفر
گفتگو صرف بادباں سے ہوئی
آؤ پھر دل کے سمندر کی طرف لوٹ چلیں
وہی پانی وہی مچھلی وہی جال اچھا ہے
کٹی ہوئی ہے زمیں کوہ سے سمندر تک
ملا ہے گھاؤ یہ دریا کو راستہ دے کر
لوگ زیر خاک بھی تو ڈوب جاتے ہیں عدیمؔ
اک سمندر ہی نہیں ہے ڈوب جانے کے لیے
چاٹ لی کرنوں نے میرے جسم کی ساری مٹھاس
میں سمندر تھا وہ سورج مجھ کو صحرا کر گیا
عشق ہو محبت ہو پیار ہو کہ چاہت ہو
ہم تو ہر سمندر کے درمیاں میں نکلیں گے
خاک کا سمندر بھی کیا عجب سمندر ہے
اس جہاں میں ڈوبیں گے اس جہاں میں نکلیں گے
میرے بالوں پہ سجا دی گرم صحراؤں کی دھول
اپنی آنکھوں کے لیے اس نے سمندر رکھ لیا
ڈوبتی جاتی ہیں مٹی میں بدن کی کشتیاں
دیکھنے میں یہ زمیں کوئی سمندر بھی نہیں
اب ٹوٹنے ہی والا ہے تنہائی کا حصار
اک شخص چیختا ہے سمندر کے آر پار
خشک کھوئے ہوئے گمنام جزیرے کی طرح
درد کے کالے سمندر سے ابھارا جاؤں
Samandar poetry in urdu copy and paste
وہ موج بن کے اٹھی یاد کے سمندر سے
تباہ کر گئی تنہائی کے جزیروں کو
موجیں تھیں شعلگی کے سمندر میں تند و تیز
میں رات بھر ابھرتا رہا ڈوبتا رہا
یہ ریت قیس کے نقش قدم پہ چلتی رہی
سمندروں کے خد و خال کو بدلتی رہی
اتار دی ہیں بھنور میں بھی کشتیاں ہم نے
سمندروں میں اگر ہے تو اس حباب میں آ
وجود شہر تو جنگل میں ڈھل چکا عالمؔ
اب اس جگہ سے مجھے جانب سمندر کھینچ
میں اس طرح سے کوچۂ وحشت کی ہو گئی
ملاح جس طرح سے سمندر کے ہو گئے
بارش کو بادلوں کو سمندر کو چھوڑ کر
افروزؔ ہم تو ساقیٔ کوثر کے ہو گئے
ساحل سے اٹھا ہے نہ سمندر سے اٹھا ہے
جو شور مری ذات کے اندر سے اٹھا ہے
Samandar poetry in urdu text
ناسمجھ قطرۂ ناچیز کی وقعت کو سمجھ
تو سمندر ہے بنایا ہے سمندر کس نے
بے رشتگی کا ایک سمندر ہے اور میں
مدت سے منتظر ہوں کنارا طلوع ہو
خاموشیاں اس ساحل آواز سے آگے
پاتال سے گہری ہیں، سمندر سے بڑی ہیں
سمندر جس کی آنکھوں کا ہو خالی
وہ کیسے خواب دیکھے جل پری کا
جوئے رواں ہوں ٹھہرا سمندر نہیں ہوں میں
جو نسب ہو چکا ہو وہ پتھر نہیں ہوں میں
اب آ کے سو گیا ہے سمندر کی گود میں
دریا میں ورنہ شور ہی اس کی اساس تھا
طوفان کی زد میں تھے خیالوں کے سفینے
میں الٹا سمندر کی طرف بھاگ رہا تھا
کھڑا تھا میں سمندروں کو اوک میں لیے ہوئے
مگر یہ شخص عجیب تھا سراب دیکھتا رہا
سمندر اور مانجھی سو گئے ہیں
سمندر کا کنارا جاگتا ہے
میں چومتا ہوا اک عہد نامۂ منسوخ
کسی قدیم سمندر میں رہ گزر کرتا
زباں رکھتے ہوئے بھی لب کشائی کر نہیں سکتا
کوئی قطرہ سمندر سے لڑائی کر نہیں سکتا
دشت کی سمت نکل آیا ہے میرا دریا
بس اسی پر ہیں خفا سارے سمندر مجھ سے
سمندروں کی طرف جا رہا ہوں جلتا ہوا
کہ میری آگ کو بادل بجھانے والا نہیں
میں اپنی لہر میں لپٹا ہوا سمندر ہوں
میں کیا کروں جو ترا بادباں دکھائی دیا
میں اپنی لہر میں لپٹا ہوا سمندر ہوں
میں کیا کروں جو ترا بادباں دکھائی دیا
اتنی اہمیت کے قابل تو نہ تھا مٹی کا گھر
ایک نقطے میں سمٹ آیا سمندر کس لیے
زندگی اتنی پریشاں ہے یہ سوچا بھی نہ تھا
اس کے اطراف میں شعلوں کا سمندر دیکھا