Sad Judai poetry in Urdu text

In this Urdu poetry, few sad judai poetry in urdu text, known as “Judai.” , Judai captures the complex emotions of life’s partings.

In this blog, we’ll explore Urdu poetry’s poignant verses on sadness and separation. Through language and culture, we’ll see how poets express separation’s essence, weaving words that touch our hearts and souls.

From classics like Mir Taqi Mir and Ghalib to modern poets like Faiz Ahmed Faiz and Ahmad Faraz, Urdu poetry has been a timeless vessel for expressing separation’s emotions. Its beauty and introspection offer comfort to those who feel the ache of parting and yearn for reunion.

Join us as we dive into the world of Sad Judai poetry in Urdu,  showing the resilience of the human spirit in the face of separation.

sad judai poetry in urdu text

میں سوچتا ہوں جہاں پہ جدائی لکھی ہے
بس اتنے ہاتھ کے حصے جلا دیئے جائیں

اپنے دکھوں پے ہنسنا اپنی خوشیوں پے رونا
کیا کچھ سکھا جاتا ہے کسی کا کسی سے جدا ہونا

sad judai poetry in urdu text

بہت دل کرتا ہے ہنسنے کو
مگر رلا دیتی ہے کمی آپ کی

گلے ملتے ہیں جب کبھی دو بچھڑے ہوۓ ساتھی
ہم بے سہاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے

تیرا بچھڑنا آنکھوں سے عیاں ہوتا ہے
درد جتنا بھی بڑھ جائے بے زباں ہوتا ہے

وہ پاس تھا تو زمانے کو دیکھتی ہی نہ تھیں
بچھڑ گیا تو ہوئیں پھر سے دربدر آنکھیں

کیسے ہوتے ہیں بچھڑنے والے
ہم یہ سوچیں بھی تو ڈر جاتے ہیں

وہ بچھڑا تو کبھی صبح نہ ہوئی
رات ہی ہوتی گئی ہر رات کے بعد

جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی
اب اتنی سی بات پہ کیا زندگی خراب کریں

دن رات میں بدل گیا
جب وہ آنکھوں سے اوجھل ہوا

انتظار یار میں زندہ ہیں خدایا ورنہ
کون جیتا ہے دنیا میں تماشا بن کر

بچھڑوں گی کچھ اس طرح تم سے
قبریں کھودتے رہ جاؤ گے میرے ہم ناموں کی

ہم ابھی ٹھیک سے ملے بھی نہ تھے
اور گھڑی آ گئی جدائی کی

‏یہ بچھڑنا نہیں اجڑنا تھا
‏جس طرح سے جدا ہوئے ہم تم

یہ ٹھیک ہے کہ تیری بھی نیندیں اجڑ گئیں
تجھ سے بچھڑ کے ہم سے بھی سویا نہیں گیا

وہ جو ہاتھ تک لگانے کو سمجھتا تھا بے ادبی
گلے لگ کے رو دیا بچھڑنے سے ذرا پہلے

اگر وہ بچھڑ کر جی سکتے ہیں
تم مر ہم بھی نہیں جائیں گے

تیرے ہجر سے تعلق کو نبھانے کے لئے
میں نے اس سال بھی جینے کی قسم کھائی ہے

تجھ سے بچھڑ کے سانس تو چلتی رہی مگر
میں خود کو زندہ دیکھ کے حیرت سے مر گیا

تمہارے ہجر کو سہنے کے واسطے ہم نے
خدا سے عمر بڑھانے کی التجا کی ہے

ایک ہی اپنا ملنے والا تھا
ایسا بچھڑا کے پھر ملا ہی نہیں

جاو بچھڑ جاو مگر خیال رہے
یہ نہ ہو بعد میں تم کو بچھڑنے کا ملال رہے

مدت ہوئی بچھڑے ہوئے اک شخص کو لیکن
اب تک در و دیوار پہ خوشبو کا اثر ہے

اے جانے والے تجھ کو اتنا بھی احساس نہیں
کیا گزرے گی اس دل پہ جس کو جدائی راس نہیں

کبھی اس درد سے گزرو تو معلوم ہو تم کو
جدائی وہ بیماری ہے جو دل کا خون پیتی ہے

ہر جدائی کا سبب بیوفائی ہی نہیں ہوتا
کچھ جدائی کا سبب اک دوسرے کی بھلائی بھی ہے

sad judai poetry in urdu 

لوگ جدا ہوئے اور بھی لیکن
ایک تیرا جدا ہونا مجھ کو ویران کر گیا

یہ رابطوں میں غفلت، یہ بھولنے کی عادت
کہیں دور ہو نہ جانا، یونہی دور رہتے رہتے

وقت نے صبر کرنا سیکھا دیا
ورنہ ہم تو تیرا دور جانا موت سمجھ بیٹھے تھے

یہ تیرا ہجر کوئی اور ہی غم ہے ورنہ
زخم جیسا بھی ہو کچھ روز میں بھر جاتا ہے

میں تو رہ لوں گی تجھ سے بچھڑ کر تنہا بھی
بس دل کا سوچتی ہوں دھڑکنا نہ چھوڑ دے

بے نور سی لگتی ہے اس سے بچھڑ کر یہ زندگی
اب چراغ تو جلتے ہیں مگر اجالا نہیں کرتے

تھکن نہیں ہے کٹھن راستوں پہ چلنے کی
بچھڑنے والوں کے دکھ نے بہت نڈھال کیا

‏بچھڑنے کی اتنی جلدی تھی اسے
خود کو چھوڑ گیا آدھا مجھ میں

سب آتے ہیں خیریت پوچھنے
تم آ جاؤ تو یہ نوبت ہی نہ آے

اک لفظ محبت تھا اک لفظ جدائی
ایک وہ لے گیا ایک مجھے دے گیا

اک زمانہ ہو گیا اسے بچھڑے ہوئے
مگر آج بھی وہ راہ چلتے لوگوں میں دیکھتا ہے

اب تو مقدار ہی ملا دے تو ملا دے ورنہ
ہم تو بچھڑے ہیں آندھی میں پرندوں کی طرح

خواب آنکھوں‌ سے گئے نیند راتوں ‌سے گئی
وہ گیا تو ایسے لگا جیسے زندگی ہاتھوں‌ سے گئی

مدت ہوئی تجھے زندگی سے رخصت کیے ہوئے
لیکن آج بھی ہر آہٹ تیرے آنے کی دستک لگتی ہے

اس کو دکھ ہی نہیں جدائی کا
بس یہ دکھ ہی کھا گیا مجھ کو

اتنے برسوں کی جدائی ہے کہ اب
تم کو دیکھیں گے تو مر جائیں گے

بکھر جاتے ہیں پیار بھرے سپنے ۔
ٹوٹ جاتا ہے دل جب چھوڑ جاتے ہیں اپنے ۔

مجھ کو کھو دو گے تو پچھتاو گے بہت
یہ آخری غلطی تم خوب سوچ کر کرنا

حوصلہ مجھ کو نہ تھا تجھ سے جدا ہونے کا۔
ورنہ کاجل میری آنکھوں میں نہ پھیلا ہوتا۔

قیامت سے کم نہیں تم سے جدا ہونا
نا بھول پائے گا دل تیرا الوداع ہونا

اس کے ہونے سے تھیں سانسیں میری دگنی۔
وہ جو بچھڑا تو میری عمر گھٹا دی اس نے۔

دور ہونے کا درد کیسا ہوتا ہے کوئی ہم سے پوچھے
تنہا راتوں میں رونا کیسا ہوتا ہے کوئی ہم سے پوچھے

کتنا آساں تھا تیرے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here