Best Saans poetry in urdu
Discover the beauty of saans poetry in Urdu, where words come alive with emotion and feeling. This collection of poems explores the rhythms of life, love, and nature, inviting you to breathe in the beauty of the world around you.Also, read another qatil poetry.
اونچی اڑان کے لیے پر تولتے تھے ہم
اونچائیوں پہ سانس گھٹے گی پتا نہ تھا
کون اترتی چڑھتی سانسوں کا امیں
سایۂ دیوار سے لپٹا ہوں میں
saans poetry in urdu
بھینی خوشبو سلگتی سانسوں میں
بجلیاں بھر گئی ہیں ہاتھوں میں
پہلے سانس جما دیتا ہے ہونٹوں پر
پھر وہ اپنی گھات کے اندر رک جاتا ہے
اپنے ہی خون سے اس طرح عداوت مت کر
زندہ رہنا ہے تو سانسوں سے بغاوت مت کر
وقت رخصت ہے مرے چاہنے والوں نے بھی اب
سانس کو وقت کا پیمانہ بنا رکھا ہے
وہ حبس تھا کہ ترستی تھی سانس لینے کو
سو روح تازہ ہوئی جسم سے نکلتے ہی
زندہ رہنے کی خواہش میں دم دم لو دے اٹھتا ہوں
مجھ میں سانس رگڑ کھاتی ہے یا ماچس کی تیلی ہے
گاہے گاہے سانسوں کی آواز سنائی دیتی ہے
گاہے گاہے بج اٹھتی ہے دل کے شکستہ ساز میں چپ
میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو
سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے
سانس کے شور کو جھنکار نہ سمجھا جائے
ہم کو اندر سے گرفتار نہ سمجھا جائے
سانس کے ہمراہ شعلے کی لپک آنے کو ہے
ایسا لگتا ہے کوئی روشن مہک آنے کو ہے
کہاں مانگی ہوئی سانسیں کہاں دل
جلایا تھا، دوبارہ مر رہا ہے
اک سانس کے بعد دوسری سانس
جینا بھگتان ہو گیا ہے
سانس کی ہر آمد لوٹانی پڑتی ہے
جینا بھی محصول چکانا لگتا ہے
حاصل اور لا حاصل پر اب ویسے بھی کیا غور کریں
اور چھلکنے والا ہو جب سانسوں کا پیمانہ بھی
کم سے کم پھونک ہی دے بجھتی ہوئی راکھ میں سازؔ
آخری سانس بھی بے کار ہوئی جاتی ہے
saansein shayari in urdu
مہک سانس سبزۂ قبر کی
کنایہ سا جیسے بلانے کا ہے
پھر دھڑکنوں میں گزرے ہوؤں کے قدم کی چاپ
سانسوں میں اک عجیب ہوا پھر ادھر کی ہے
دوستو زندگی امانت ہے
سانس لینا بھی اک عبادت ہے
اے زندگی نہ ہم سے چھپا راز زندگی
ہر سانس میں ہیں تیرے ہی آئینہ دار ہم
وقت کی دوڑ میں رکنا تھا کٹھن
سانس لینے کی بھی فرصت نہ رہی
موت کا وقت معین ہے تو پھر بات ہے کیا
کون ہے مجھ میں جو ہر سانس پہ مر جاتا ہے
زہر خود بوتے رہے اجلی ہواؤں میں کمالؔ
چند سانسوں کو بھی ہم بے ذائقہ کرتے رہے
saans shayari urdu
شوقؔ جب تک سانس ہے تب تک ہے امید حیات
کیوں ابھی سے آپ نے دل اپنا چھوٹا کر لیا
سانس خود ہی چلی آ رہی ہے
سانس لینے کی فرصت کہاں ہے
گھونسلہ زندگی کا
سانس کی شاخ پر ہے
پل دو پل کی خاطر ہی
سانسوں کی ارزانی رکھ
کٹ رہی ہے سانس خود کو گروی رکھواتے چھڑاتے
زندگی کے نام پر سب لوگ خود کو چھل رہے ہیں
ارادتاً تو کہیں کچھ نہیں ہوا لیکن
میں جی رہا ہوں یہ سانسوں کی خوش گمانی ہے
دم کے دم میں دنیا بدلی بھیڑ چھٹی کہرام اٹھا
چلتے چلتے سانس رکی اور ختم ہوا افسانہ بھی
ہر ایک سانس پہ دھڑکا ہے موت کا عابدؔ
یہ زندگی ہے کہ ہے گھر کسی وڈیرے کا
سکوں سے رہتے ہیں کس طرح لوگ دنیا میں
مرے لیے تو یہ سانسیں بھی اک عذاب رہیں
سانسوں کو دے کے تحفۂ نکہت گزر گئی
چھو کر مجھے ہوائے محبت گزر گئی
جس کی سانسوں میں تھی مسیحائی
اس کا ایک ایک لفظ نشتر تھا
اکھڑتی سانسیں اور اس رخ کی دید اے عابدؔ
نظر کی پیاس بجھی تو مگر بجھی بھی تو کب
نہ پوچھو جان پر کیا کچھ گزرتی ہے غم دل سے
قرار آنا کہاں کا سانس بھی آتی ہے مشکل سے
لیتا ہے وجود گرم سانسیں
ایک شعلۂ شوق وہ بدن ہے
آس کی بات ہو کہ سانس اداؔ
یہ کھلونے تھے ٹوٹ جانے کو
کیوں آج دھواں بن کے افق تا بہ افق ہے
اس سانس میں کلیوں کے چٹکنے کی صدا تھی
کیا کہتے کہ ہونٹوں پہ بس اک حرف وفا تھا
کیا کیجیے ہر سانس جو تعزیر وفا تھی
ہے تیرے کرم سے ہی خطا کار کی بخشش
ہر سانس مری رب علا کانپ رہی ہے
روز ہی سانس پھول جاتی ہے
زندگانی کے ناز اٹھانے میں
لے اڑی ہے تیری سانسوں کی مہک شاید ہوا
کیا سبب ورنہ کہ یوں پھرتی ہے اترائی ہوئی
میں خاک سے ہوں مجھے خاک جذب کر لے گی
اگرچہ سانس ملے عمر بھر ہوا سے مجھے
خود اپنی سانس کہ رکتی ہے اپنے چلنے سے
یہ کیا گھٹن ہے میں کس تنگ سے مکان میں ہوں
اوکاڑہ اتنی دور نہ ہوتا تو ایک دن
بھر لاتے سانس سانس میں گل آفتاب کے
تری ذات میں سانس لی ہے سدا
تجھے چھوڑ کر میں کدھر جاؤں گا
سانس کی آنچ ذرا تیز کرو
کانچ کا جسم پگھل جانے دو
رہے مٹی کی خوشبو یاد ہر دم
تو سانسیں روکتی غربت نہیں ہے
میری رگ رگ میں لہو بن کے مچلتی ہوئی تو
تیری سانسوں کی حرارت سے پگھلتا ہوا میں
سلگ رہی ہوں میں سانسوں کی تیز بھٹی میں
پلا رہا ہے وہ الفت کے جام بھر کے مجھے
میں نے خوشبو کے لبادے میں جسے چوما تھا
میری ہر سانس میں شامل ہے وہ پھولوں کی طرح
میری سانسوں میں وصل کی خوشبو
جتنی ہے سب کی سب تمہاری ہے
وہ شب کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں وہ لڑکھڑانے لگا اندھیرا
اٹھو مصیبت کشو اٹھو بھی اٹھو کہ ہونے کو ہے سویرا
سانس لینے کو یوں تو لیتے ہیں
چین کا سانس بھی کبھی لیں گے
چار سانسیں تھیں مگر سینے کو بوجھل کر گئیں
دو قدم کی یہ مسافت کس قدر بھاری ہوئی
وہ سانس امڈی کہ بے حسوں نے غضب میں آ کر
گرا دیے حبس کے کٹہرے ہوا نہ ٹھہرے
جسم سانسو کی ستم گار روانہ سے میاں
ایسا بکھرا ہے اکٹھا بھی نہیں کر سکتے
تیری خوشبو ہے میری سانسوں میں
جب سے میں تیری رہ گزار میں ہوں
شجر کو آگ کسی اور نے لگائی تھی
نہ جانے سانس میں کیوں بھر لیا دھواں میں نے
ہمارے سانس بھی لے کر نہ بچ سکے افضلؔ
یہ خاکدان میں دم توڑتے ہوئے سگریٹ
بس اب تو رہ گئی ہے دکھاوے کی زندگی
سانسوں کے تار تار میں ایک ارتعاش ہے
شکوہ نہ کیجیئے ابھی اپنے نصیب کا
سانسوں کی تیز آنچ پہ ہر شب گزاریے