famous qatil Shayari in urdu
Experience the powerful words of qatil shayari in urdu, a collection of Urdu poetry exploring love and life’s ups and downs. These poems are full of emotion and will resonate with your heart. Also, read muhabbat poetry.
ہم کو تو درد جدائی سے ہی مر جانا تھا
چند روز اور نہ قاتل کو اشارہ کرتے
بستی بستی گھوم رہے ہیں بھیڑ بھرے چوراہوں پر
اجلے اجلے پہناؤں میں چہرے بدلے قاتل لوگ
best qatil shayari in urdu
بہروپیا ہے کوئی پھرے ہے نگر نگر
قاتل کا روپ دھارے کبھی چارہ ساز کا
باندھ کر تیغ و کفن جاتے ہیں اس قاتل کے پاس
ہم بھی دیکھیں روکنے والا ہمارا کون ہے
گرم خوابی نے تری ذبح کیا اے قاتل
ایک دم بھی نہ کلیجا ہوا ٹھنڈا اپنا
تیرے قربان میں اتنا تو بتا دے قاتل
میری گردن پہ چلا خنجر براں کیسا
اب سبک دوش میں ہوں بوجھ گلے کا ٹل جائے
تیغ قاتل سے الٰہی کہیں بے سر میں ہوں
حسن کافر تھا ادا قاتل تھی باتیں سحر تھیں
اور تو سب کچھ تھا لیکن رسم دل داری نہ تھی
زخم ملتے ہیں علاج زخم دل ملتا نہیں
وضع قاتل رہ گئی رسم مسیحائی گئی
میرے قاتل تجھ کو آخر کون سمجھائے یہ بات
پر شکستہ ہو کے کوئی زیر دام آیا تو کیا
آج مقتل میں لگا ہے سرپھروں کا اک ہجوم
پھر کسی قاتل کے جوہر آزمائے جائیں گے
زمانہ قتل ہوا اور وہ رہی پیاسی
گلا ہے ابروئے قاتل سے تیغ قاتل کو
وہ قاتلوں کو چھڑا لائے گا عدالت سے
ہے اس کی بات مدلل بیان اونچا ہے
ادھر ہم سر ہتھیلی پر لیے مقتل میں پہنچے تھے
ادھر قاتل نے گھبرا کر ہتھیلی سر پہ رکھی تھی
میں دھیرے دھیرے ان کا دشمن جاں بنتا جاتا ہوں
وہ آنکھیں کتنی قاتل ہیں وہ چہرہ کیسا لگتا ہے
qatil poetry in urdu
میں دھیرے دھیرے ان کا دشمن جاں بنتا جاتا ہوں
وہ آنکھیں کتنی قاتل ہیں وہ چہرہ کیسا لگتا ہے
موت ہر بار رہائی میں مری مانع ہوئی
لے گئی زیست تو اکثر مجھے قاتل کے قریب
ہم زخموں کی شدت کو بیاں کر کے بھی طرزیؔ
قاتل ہی کا خود اپنے قد اونچا نہ کریں گے
مرا خون تمنا ہے حنا بند کف قاتل
جنون شوق کام آیا فراز دار کا حلقہ
تیغ ستم سے میرا جو خوں بہا دیا ہے
قاتل نے میرے دل کا یہ خوں بہا دیا ہے
مجھے سب دیکھ کر حیران کیوں ہیں
میں قاتل ہوں کوئی یا دیوتا ہوں
قاتل نگہ کوں پوچھتے کیا ہو کہ کیا کہو
خنجر کہو کٹار کہو نیمچا کہو
انکھیوں سیں جان بچانا نظر تب آتا ہے
تڑپھ میں چھوڑ کے بسمل کو جب کہ قاتل جا
نہ دو الزام بھنورے کو علیؔ تم
وہ ہرگز پھول کا قاتل نہیں تھا
qatil urdu poetry
ہر موج بلا اک ساحل ہے گرداب ہی اپنا حاصل ہے
یہ کشتئ دل وہ قاتل ہے منجھدار نہیں تو کچھ بھی نہیں
کیوں اسیر گیسوئے خم دار قاتل ہو گیا
ہائے کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو اے دل ہو گیا
اس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے
دل کا ہر ارماں فداے دست قاتل ہو گیا
بات اپنے شہر کی کچھ تو کہو
قاتلوں کی پاسبانی ہو گئی
میں قاتل نہ محشر میں سمجھوں بھی تو کیا
تمہیں سب خدا کی قسم جانتے ہیں
کمی ہے مرنے والوں کی نہ قاتل کی زمانہ میں
کسی کی ہر ادا کہتی ہے قتل عام ہونے دو
اداس رات میں تارے گواہ بنتے ہیں
رگ حباب سے تو قاتلانہ خنجر کھینچ
عجب نہیں کہ اگر آئینہ مقابل ہو
تمہاری تیغ ادا خود تمہاری قاتل ہو
یہ عرض روز جزا ہم کریں گے داور سے
کہ خوں بہا میں ہمارے حوالے قاتل ہو
تمہارے لب تو ہیں جان مسیح و آب بقا
یہ کیا زمانے میں مشہور ہے کہ قاتل ہو
نہ مقتل میں چل سکتی تھی تیغ قاتل
بھرے اتنے امیدوار آتے آتے
کیا سوال جو میں نے وفا کے قاتل سے
زباں پہ قفل لگا تھا جواب کیا دیتا
میں اب بھی شان سے زندہ ہوں شہر قاتل میں
مرے خدا کی یقیناً یہ مہربانی ہے
یہ بتا دے مجھ کو میرے دل کسے آواز دوں
خود مسیحا ہے مرا قاتل کسے آواز دوں
میں تو اپنی جان پہ کھیل کے پیار کی بازی جیت گیا
قاتل ہار گئے جو اب تک خون کے چھینٹے دھوتے ہیں
قاتل کی راہ دیکھ لے دم بھر نہ زہر کھا
اے دل قضا کو آنے دے بے موت مر نہیں
تیز کب تک ہوگی کب تک باڑھ رکھی جائے گی
اب تو اے قاتل تری شمشیر آدھی رہ گئی
خود کہا قاتل سے میں نے پھر دوبارہ ذبح کر
کٹ کے جب گردن دم تکبیر آدھی رہ گئی
ٹھہرے نہ خوں بہا سوئے قاتل تو کیا کروں
حق ہو جو خود بخود مرا باطل تو کیا کروں
منہ چوم لوں کہ گرد پھروں دوڑ دوڑ کے
اے دل جو ہاتھ روک لے قاتل تو کیا کروں
ہوس ہے دل کو تیرے ہاتھ سے مجروح ہونے کی
لگا دے اک چھری اے قاتل مغرور پہلو میں
قضا بھی تیرے ہاتھوں چاہتے تھے تجھ کو کیا کیجے
نہیں تو تیغ دم کے ساتھ قاتل ہم بھی رکھتے تھے
جس طرف لے جا رہی ہے زندگی
اس طرف بھی کوچۂ قاتل نہ ہو
کوئی مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے
تیغ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا
خاموش ہو کیوں داد جفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے
میں کیا کروں مرے قاتل نہ چاہنے پر بھی
ترے لیے مرے دل سے دعا نکلتی ہے
خلقت کا عجب حال تھا اس کوئے ستم میں
سائے کی طرح دامن قاتل سے لگی تھی
دعائیں دو مرے قاتل کو تم کہ شہر کا شہر
اسی کے ہاتھ سے ہونا ہلاک چاہتا ہے
دست قاتل سے کچھ امید شفا تھی لیکن
نوک خنجر سے بھی کانٹا نہ گلو کا نکلا
کہ اپنے حرف کی توقیر جانتا تھا فرازؔ
اسی لیے کف قاتل پہ سر اسی کا رہا
اور پھر سب نے یہ دیکھا کہ اسی مقتل سے
میرا قاتل مری پوشاک پہن کر نکلا
قاتل اس شہر کا جب بانٹ رہا تھا منصب
ایک درویش بھی دیکھا اسی دربار کے بیچ
کچھ سر بھی کٹ گرے ہیں پہ کہرام تو مچا
یوں قاتلوں کے ہاتھ سے تلوار بھی گری
خدایا یوں بھی ہو کہ اس کے ہاتھوں قتل ہو جاؤں
وہی اک ایسا قاتل ہے جو پیشہ ور نہیں لگتا
کھا گئی خون کی پیاسی وہ زمیں ہم کو ہی
شوق تھا کوچۂ قاتل کی ہوا کھانے کا