promise poetry in urdu

Enter the inspiring world of promise poetry in urdu, where words become beacons of light in our lives. These poems are like a gentle whisper of encouragement, reminding us of the promises we make to ourselves and others. Join us on a journey of hope, resilience, and determination, one promise at a time. Also, read another funny caption.

promise poetry in urdu

سایۂ گل میں ذرا دیر جو سستائے ہیں
سایۂ دار سے یہ وعدہ خلافی تو نہیں

وعدہ بھی ہے تو ہے قیامت کا
جس کو ہم آزما نہیں سکتے

promise poetry in urdu

promise poetry in urdu

کیا بھروسہ اس کے وعدے کا مگر
دل کے خوش رکھنے کو اک وعدہ تو ہے

اس سے پہلے کہ ہمیں اہل جفا رسوا کریں
اپنی جاں دے کر وفا کرنے کا ہم وعدہ کریں

اک قیامت ہے آپ کا وعدہ
چلئے یہ بھی عذاب ہو جائے

زمانے کو زمانے کی پڑی ہے
ہمیں وعدہ نبھانے کی پڑی ہے

ایک وعدہ جو سب سے سستا ہے
اور دینے کو دان میں کیا ہے

promise poetry in urdu

میان وعدہ کوئی عذر اب کے مت لانا
کہ راہیں سہل ہیں اور زخم بھی کھلا ہوا ہے

عمر تنہا کاٹ دی وعدہ نبھانے کے لیے
عہد باندھا تھا کسی نے آزمانے کے لیے

سب سے کیا ہے وصل کا وعدہ الگ الگ
کل رات وہ سبھی پہ بہت مہربان تھا

حور و قصور و مئے سبھی اہل صفا کے واسطے
مجرم عشق کے لئے وعدۂ یک نجات بس

جب بات وفا کی آتی ہے جب منظر رنگ بدلتا ہے
اور بات بگڑنے لگتی ہے وہ پھر اک وعدہ کرتے ہیں

wada poetry sms in urdu

وعدۂ وصل یار نے مارا
شدت انتظار نے مارا

وعدۂ بے وفا وفا نہ ہوا
مجھ کو اس اعتبار نے مارا

موسم خشک ہوا تیز مگر وعدہ رہا
سرخ پھولوں کے لیے نام وفا لاؤں گا

بڑا بدعہد ہے اس شہرت ایفائے وعدہ پر
اگر مشہور تو پیماں شکن ہوتا تو کیا ہوتا

کل کا وعدہ نہ کرو دل مرا بیکل نہ کرو
کل پڑے گی نہ مجھے مجھ سے یہ کل کل نہ کرو

وعدہ کر اے دل کش لڑکی وصل سے لے کر ہجر تلک
رشتہ چاہے جیسا بھی ہو خرچہ اپنا اپنا ہے

وعدہ لے لیتا کہ کھلوانہ نہ مجھ کو ٹھوکریں
عالم ارواح میں جس جا قضا تھی میں نہ تھا

ہے یہ برقیؔ حسینوں کی فطرت کا جز
وعدہ کر کے نہ آنا بلانے کے بعد

حسب وعدہ مجھ سے ملنے وہ کبھی آیا نہیں
اس سے بڑھ کر اور کچھ بھی حوصلہ فرسا نہیں

کر کے اس کے وعدۂ فردا پہ برقیؔ اعتبار
میں کئی دن تک مسلسل رات بھر سویا نہیں,

وہ حسب وعدہ نہ آیا تو آنکھ بھر آئی
مجھے تماشا بنایا تو آنکھ بھر آئی

یار پیماں شکن آئے اگر اب کے تو اسے
کوئی زنجیر وفا اے شب وعدہ پہنا

سو گئے ہم بھی کہ بیکار تھا رستہ تکنا
اس کو آنا ہی نہیں تھا شب وعدہ یوں بھی

wada shayari 2 lines urdu

لوٹوں مزے جو بازیٔ شطرنج جیت لوں
اس کھیل میں تو وعدہ ہے بوس کنار کا

وعدہ کیا ہے غیر سے اور وہ بھی وصل کا
کلی کرو حضور ہوا ہے دہن خراب

کوئی جھوٹا وعدہ بھی کرتا نہیں ہے وہ کبھی
خود امیدیں باندھ لیتا ہوں بہل جاتا ہوں میں

کوئی وعدہ بھی تو وفا نہ ہوا
بے وفاؤں سے پیار کون کرے

نہ سہی وصل کوئی وصل کا وعدہ تو کرے
ہم تو اس پر ہی بہل جائیں گے رفتہ رفتہ

اپنے پہلو میں تجھے دیکھ کے حیرت ہے مجھے
خرق عادت ہے ترا وعدہ وفا ہو جانا

آج تک اس نے تو وعدہ کوئی ایفا نہ کیا
جانے کیا سوچ کے پھر شرط وفا بھی بدلی

اتنا کرم اتنی عطا پھر ہو نہ ہو
تم سے صنم وعدہ وفا پھر ہو نہ ہو

اک منتظر وعدہ بیدار تو ہے کب سے
ہو جائے مقدر بھی بیدار چلے آؤ

نگاہوں میں شمع تمنا جلا کر تکی ہوں گی تم نے بھی راہیں کسی کی
کسی نے تو وعدہ کیا ہوگا تم سے کسی نے تو تم کو رلایا تو ہوگا

یوں مجھ کو اعتبار بہت ہے مگر حضور
وعدے تو ٹوٹ جاتے ہیں وعدہ نہ کیجیے

اس لئے نہیں کرتے ان سے کوئی وعدہ ہم
وعدے کے نبھانے میں عمر بیت جاتی ہے

وعدہ اس ماہرو کے آنے کا
یہ نصیبہ سیاہ خانے کا

یقین وعدہ نہیں تاب انتظار نہیں
کسی طرح بھی دل زار کو قرار نہیں

ہم کبھی آئیں ترے گھر مگر آئیں گے ضرور
تم نے یہ وعدہ کیا تھا کہ نہیں یاد کرو

دے نہ پایا وہ کوئی وعدہ خلافی کا جواز
مضمحل اس کے نہ آنے کے بہانے نکلے

الماری سے ملے مجھے پہلے پہل کے خط
بیٹھا ہوا ہوں آپ کا وعدہ نکال کے

لوگ وہ کتنی چین کی نیندیں سوتے ہیں
وعدہ کر کے جلد مکرنے والے لوگ

مدتوں سے دل ہے اس کا منتظر
کوئی وعدہ کر گیا تھا خواب میں

لذت انتظار ہی نہ رہے
کہیں وعدہ وفا نہ ہو جائے

اک منتظر وعدہ کی شمع جلی ہوگی
سورج کے نکلنے سے کیا رات ڈھلی ہوگی

آج آنا ہے انہیں لیکن نہ آنا چاہئے
وعدۂ فردا اصولاً بھول جانا چاہئے

ہر وعدہ جیسے حرف غلط تھا سراب تھا
ہم تو نثار جرأت انکار ہو گئے

سسک رہے ہیں تمام وعدہ نبھانے والے
کہ ہم یہ کیسی اذیتوں کو نبھا رہے ہیں

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

ديکھنے والے يہاں بھي ديکھ ليتے ہيں تجھے
پھر يہ وعدہ حشر کا صبر آزما کيونکر ہوا

نہیں وعدہ نہیں ہوگا کوئی اب
بہت ہوگا تو بس زندہ رہوں گا

مجھے کل کے وعدے پہ کرتے ہیں رخصت
کوئی وعدہ پورا ہوا چاہتا ہے

محشر کا کیا وعدہ یاں شکل نہ دکھلائی
اقرار اسے کہتے ہیں انکار اسے کہتے ہیں

دو چار رشک ماہ بھی ہم راہ چاہئیں
وعدہ ہے چاندنی میں کسی مہرباں سے آج

سب چاہتے ہیں اس سے جو وعدہ وصال کا
کہتا ہے وہ زباں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

اس کے وعدوں سے اتنا تو ثابت ہوا اس کو تھوڑا سا پاس تعلق تو ہے
یہ الگ بات ہے وہ ہے وعدہ شکن یہ بھی کچھ کم نہیں اس نے وعدے کیے

بے شک نبھا نہ پائے وعدہ کیا جو تم نے
لیکن صنم تمہارا وعدہ پسند آیا

وعدہ ہے تجھ سے میں تیری یادوں کو
محشر کی گھڑیوں تک زندہ رکھوں گا

تمہارا ہاتھ جب میرے لرزتے ہاتھ سے چھوٹا خزاں کے آخری دن تھے
وہ محکم بے لچک وعدہ کھلونے کی طرح ٹوٹا خزاں کے آخری دن تھے

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here