Best paisa poetry in urdu

In a world where money makes the mare go, paisa poetry in urdu offers a different take on the role of wealth in our lives. With its clever wordplay and sharp observations, Paisa’s poetry reflects our relationship with money and shows us the highs and lows of our financial struggles.

Urdu poets have been using the theme of money to comment on the human condition. Join us as we enter the world of Paisa poetry in Urdu where the language of cash becomes the language of thought.”

Through paisa poetry, we gain a unique window into the human experience, one that reveals the intricate web of relationships between money, power, love, and identity. So let’s get started and read poetry.

paisa poetry in urdu

‏جیب میں وزن ہو تو بات میں بھی وزن آجاتا ہے
اور دنیا کی یہی حقیقت ہے

Paisa poetry in urdu text

غریب شہر تو فاقوں سے مر گیا
امیر شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی

paisa poetry in urdu

اس غریبی سے پناہ مانگو جو مایوس کر دیتی ہے
اس مال سے پناہ مانگو جو مغرور کر دیتا ہے

جانتا بھی ہے درزی یہ مفلسی کا لباس ہے
پھر بھی میری قمیض پہ وہ جیب بنا دیتا ہے

اللہ سے اتنا ہی پیسہ مانگنۓ جتنے کی تمہیں ضرورت ہو کیونکہ اوقات سے زیادہ پیسہ بھی انسان کو گھمنڈ میں مبتلا کر دیتا ہے

اگر رزق عقل اور دانشوری سے ملتا تو جانور اور بے وقوف بھوکے مرجاتے

جب آپ کے پاس دولت ہو تو تکبر مت کرنا
دولت تو ایک نہ ایک دن چلی جائگی مگر آپ کا رویہ یاد رہ جائگا

اتنا قیمتی نہ کر خود کو کہ تو میری استطاعت سے باہر ہو جائے
لوگ اکثر مہنگی چیز کو چھوڑ دیتے ہیں اپنی حیثیت دیکھ کر

آج کل ‏مرد کی سب سے بڑی بدصورتی اس کی خالی جیب ہے

غربت خیرات سے نہیں
محنت کرنے سے ختم ہوتی ہے

دولت ایک ایسی تتلی ہے
جسے پکڑتے پکڑتے
آدمی اپنوں سے دور نکل جاتا ہے

ایسی غربت پر صبر کرنا جس میں عزت محفوظ ہو
اس امیری سے بہتر ہے جس میں ذلت و رسوائی ہو

آج کل صرف پیسے کی اہمیت ہے
ہنر سڑکوں پر تماشا کرتا ہے
اور قسمت محلوں میں راج کرتی ہے

ٹوٹ جاتا ہے غریبی میں وہ رشتہ جو خاص ہوتا ہے
ہزاروں یار بنتے ہیں جب پیسہ پاس ہوتا ہے

Paisa poetry in urdu copy and paste

پیسہ پاس ہے تو انسان عقل مند اور خوبصورت دونوں ہو جاتا ہے

یہ غریب لوگ بھی کمال کرتے ہیں
گندے لباس میں دل صاف رکھتے ہیں

زندگی میں پیسہ نمک کی طرح ہوتا ہے
اگر زیادہ ہو جائے تو ذائقہ بگاڑ دیتا ہے

دولت ایک ایسی تتلی ہے
جسے پکڑتے پکڑتے آدمی اپنوں سے دور نکل جاتا ہے

‏پہلے دولت کے انبار ڈھونڈتے ہیں
پھر زندگی میں قرار ڈھونڈتے ہیں

دولت ہو تو پردیس میں بھی دیس ہے
اور غربت ہو تو دیس میں بھی پردیس ہے
غربت انسان کو اپنے ہی شہر میں اجنبی بنا دیتی ہے

‏سو گئے بچے غریب کے جلدی سے یہ سن کر
‏فرشتے آتے ہیں خوابوں میں روٹیاں لے کر

بنا کر تاج محل اک دولت مند عاشق نے
ہم غریبوں کی محبت کا مزاق بنا ڈالا

بندا کتنا بھی امیر کیوں نہ ہو
وہ کبھی بھی گزرے ہوۓ وقت کو نہیں خرید سکتا

کبھی کسی غریب کی ہنسی مت چھینئے
اک زمانہ لگتا ہے ان کو مسکرانے میں

Paisa poetry in urdu for instagram

دولت محنت کرنے سے نہیں بلکہ عقل سے آتی
ورنہ سر پہ پتھر اٹھانے والے مزدور سب سے زیادہ دولت مند بن جاتے

‏بھوک پھرتی ہے میرے شہر میں ننگے پاٶں
‏رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے

جس کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے
ان کا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے

تلاش رزق میں یہ شام اس طرح گزر گئی
کوئی ہے اپنا منتظر خیال ہی نہیں رہا

پیسہ چیز ہی ایسی ہے
بڑے بڑے رشتے اور تعلق بھلا دیتی ہے

جب چھوٹا تھا تو اندھیرے سے ڈر لگتا تھا
اب بجلی کا بل دیکھتا ہوں تو روشنی سے ڈر لگتا ہے

میں نے اس دنیا میں بہت سے ایسے امیر دیکھے ہیں
جن کے پاس پیسے کے سوا سب کچھ ہے

آسائش کی نمائش کرنا انسان کے چھوٹے پن کو ظاہر کرتا ہے

زمانہ کچھ نہیں بولتا سب پیسہ بولتا ہے
پیسہ آنے کے بعد انسان نہیں انسان کا مزاج بولتا ہے

کڑی دھوپ میں جلتا ہوں اس یقیں سے
میں جلوں گا تو میرے گھر میں اجالے ہوں گے

میں نے ایک نوالے کیلئے جس کا شکار کیا
وہ پرندہ بھی کہی روز سے بھوکا نکلا

آنسو بہا بہا کر بھی ہوتے نہیں کم
کتنی امیر ہوتی ہیں آنکھیں غریب کی

جو موت سے نہیں ڈرتا تھا بچوں سے ڈر گیا
ایک رات خالی ہاتھ جب مزدور گھر گیا

بننا ہے تو دین دار بنو
مالدار تو فرعون بھی تھا

کسی غریب کا کرتی نہیں ہے احترام
یہ دنیا لباس دیکھ کر سلام کرتی ہے

جب دولت آنے پر کسی کا اخلاق تباہ ہوجائے
تو سمجھ لو اس کے زوال کا وقت قریب آچکا ہے

کسی کی آنکھ بھی کھلتی ہے تو سونے کی نگری میں
کسی کو گھر بنانے میں زمانے بیت جاتے ہیں

امیر کے گھر کا کوا بھی ہر کسی کو مور نظر آتا ہے
اور غریب کے گھر کا بچہ بھی ہر کسی کو چور نظر آتا ہے

خاندانی اڑان میں آواز نہیں ہوتی
تجھے دیکھ کے لگتا ہے یہ دولت نئی نئی ہے

دیکھی جو گھر کی غربت تو چپکے سے مر گئی
ایک بیٹی اپنے باپ پہ احسان کر گئی

یہ جو تجھے جھک کر سلام کرتے ہیں
یہ تیرے پیسے کا احترام کرتے ہیں

میں خود غرض نہیں میرے آنسو پرکھ کر دیکھو
مجھے فکر چمن ہے غم آشیاں نہیں

‏غریب بندہ روٹی کے پیچھے بھاگتا ہے
اور امیر بندہ روٹی ہضم کرنے کے لیے بھاگتا ہے

اگر سخی بننا ہے تو غریبی میں لوگوں کو دینا سیکھو
امیری میں تو ہر کوئی سخی بن جاتا ہے

جہیز کے فتنے دب جائینگے ایک دن
یا رب کسی غریب کی بیٹی جواں نہ ہو

رزق صرف یہ نہیں کہ تمهیں کهانا ملے
بلکہ اچهی نوکری اچهے ماں باپ اچهی اولاد بهی بہترین رزق ہیں

شاعری لکھ رہا تھا غربت پر
قلم ہی فروخت کرنا پڑ گیا مجھے

اگر تم وہ کرتے ہو جو ہمیشہ سے کرتے آرہے ہو
تو تمہیں وہی ملے گا جو ہمیشہ سے ملتا آرہا ہے

یوں تو میرے خلوص کی قیمت کم نہ تھی
لیکن کچھ کم شناس لوگ دولت پہ مر گئے

شہرت کی بلندی کا تو اک پل کا بھروسہ نہیں ہے
جس شاخ پے بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے

وفا کی خوشبو تو غریب سے آتی ہے
امیر کا تو عکس بھی بدل جاتا ہے

آج کل سب اپنے پرائے ہوئے
جب سے ہم بے روزگار ہوئے

اتنے پیسے نہیں گرتے جتنا انسان پیسہ کے لیے گرتا ہے

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here