Musafir sad poetry in urdu
Join us on a journey through the soulful world of Musafir sad poetry in urdu, where words capture the essence of life’s travels and experiences. These poems explore the ups and downs of life, love, and longing, resonating with the wanderer in all of us.You should read another fantastic poetry.
سفر کا شوق نہ منزل کی جستجو باقی
مسافروں کے بدن میں نہیں لہو باقی
مسافروں کی تواضع سے نام ہوتا ہے
کرم کرو کہ غریب الدیار ہم بھی ہیں
musafir sad poetry in urdu
ہر مسافر سے راستوں نے کہا
ظلمتوں میں سحر نہیں باقی
کہیں تو آ کے رکے بھی مسافری میری
کہ مجھ کو ڈھونڈھتی رہتی ہے بے گھری میری
کل تک تھے مطمئن کہ مسافر ہیں رات کے
اب روشنی ملی ہے تو بینائی چاہے
گاؤں میں ناؤ تھی کاغذ کی سفر آساں تھا
اک مسافر ہوں یہاں راہ دکھاتے جاؤ
کدھر کا تھا کدھر کا ہو گیا ہوں
مسافر کس سفر کا ہو گیا ہوں
کون پوچھے اک مسافر کو جہاں
کارواں کے کارواں ہی کھو گئے
چنے تنکے بہت میں نے بنایا آشیاں اپنا
ازل سے اک مسافر ہوں مجھے اس کا گماں بھی تھا
خوش ہیں تو پھر مسافر دنیا نہیں ہیں آپ
اس دشت میں بس آبلہ پائی ہے روئیے
مسافرت میں شب وغا تک پہنچ گئے ہیں
یہ لوگ اپنی ابد سرا تک پہنچ گئے ہیں
غبار در بدری جس نے کر دیا مجھ کو
مسافروں کو اسی دھوپ نے کھجور کیا
صدائے ذات کے اونچے حصار میں گم ہے
وہ خامشی کا مسافر پکار میں گم ہے
عجیب خلق سے اک اجنبی مسافر نے
ہمیں خلاف توقع بلا کے مار دیا
میں وہ مسافر روشن خیال ہوں یارو
جو راستے میں بھی آرام لیتے رہتے ہیں
کام تیرا ہے گھنی چھاؤں میں کیا
تو مسافر ہے تجھے چلنا ہے چل
جو نفس تھا وہ رہا گرم سفر
کب مسافر کو ٹھہرنا آیا
کس کو آواز دے مسافر غم
بے جہت ہے سفر کا سناٹا
musafir poetry in urdu sms
مسافران وفا کی کوئی خبر نہ ملی
نہ جانے کون کدھر کو گیا ہے رستے میں
کبھی رستے یہ ہم سے پوچھتے ہیں
مسافر ہو رہے ہیں در بدر کیا
سرائے دہر میں ٹھہرا ہوا مسافر ہوں
عجیب بے سر و ساماں دکھائی دیتا ہے
یہ کیسی دھول سی راہوں میں اڑتی پھرتی ہے
تو اے مسافر جاں کیا بچا نہیں کچھ بھی
نپٹ یہ ماجرا یارو کڑا ہے
مسافر دشمنوں میں آ پڑا ہے
ہم سفر بھی ہیں رہ گزر بھی ہے
یہ مسافر ہی کو بہ کو ہے ابھی
اب ڈھونڈنے چلے ہو مسافر کو دوستو
حد نگاہ تک نہ رہا جب غبار بھی
musafir poetry in urdu text
سر صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے
میں چلتا ہوں مجھے چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے
میں تو اک مستقل مسافر ہوں
تو بھلا میرا ہم سفر کیوں ہے
تھکے ہارے مسافر سو گئے ہیں
فقط قطبی ستارا جاگتا ہے
مسافروں کو وہ راہیں دکھائے گا افضلؔ
چراغ رکھ دو سر رہ گزر اندھیرے میں
شمع بھی بجھ جائے گی پروانہ بھی جل جائے گا
رات کے دونوں مسافر ہیں شجر دیکھے گا کون
افضلؔ یہ تیرگی کے مسافر کہاں چلے
جی چاہتا ہے ان پہ کئی چاند ماریے
ہر مسافر ترے کوچے کو چلا
اس طرف چھاؤں گھنی ہو جیسے
یار نے لوٹ لیا مجھ وطن آوارہ کو
لوگ غربت میں مسافر کی خبر لیتے ہیں
مطمئن ہوں رہ عصیاں میں تری رحمت سے
وہ مسافر ہوں کہ تشویش سفر کچھ بھی نہیں
یہ ہم نے کیسا سفر کیا ہے مسافروں کو رلا دیا ہے
اجل نے آغوش میں لیا ہے خبر بھی ہم کو نہیں سفر کی
دیا کرتے ہو تم جس طرح سے بل زلف پیچاں کو
مسافر کے لیے یوں پھانسیاں رہزن بناتے ہیں
کتنے سادہ ہیں یہ کشتی کے مسافر جن کو
ناخداؤں کی خدائی پہ یقیں ہوتا ہے
ہم سفر چاہیئے ہجوم نہیں
اک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے
ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر
پاؤں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا
ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تو
کہاں گیا ہے مرے شہر کے مسافر تو
میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فرازؔ
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا
شہر جاناں سے پرے بھی کئی دنیائیں ہیں
ہے کوئی ایسا مسافر جو ادھر بھی جائے
اکیلے پار اتر کر یہ ناخدا نے کہا
مسافرو یہی قسمت شکستہ ناؤ کی تھی
خضر ہے بحری مسافر کا منار روشنی
ہے جہازوں کے لیے رہبر دھواں بتی چراغ
اک مسافر کی طرح دور سے آیا ہوا میں
اب کہاں جاؤں ترے در سے اٹھایا ہوا میں
عجب سفر تھا عجب تر مسافرت میری
زمیں شروع ہوئی اور میں تمام ہوا
سفر نیا تھا نہ کوئی نیا مسافر تھا
وہی طلب تھی وہی آشنا مسافر تھا
دیار درد کی پر ہول رہ گزاروں میں
ترا خیال کوئی دوسرا مسافر تھا
جو دیکھتا ہوں تو دیوار آئنہ کے ادھر
مری ہی شکل کا اک بے نوا مسافر تھا
نظر ملی تھی گھڑی بھر کو پھر ملا نہ کبھی
نہ جانے کون تھا کس دیس کا مسافر تھا
نظر ملی تھی گھڑی بھر کو پھر ملا نہ کبھی
نہ جانے کون تھا کس دیس کا مسافر تھا
میں شب کے مسافروں کی خاطر
مشعل نہ ملے تو گھر جلاؤں
مسافر ہی مسافر ہر طرف ہیں
مگر ہر شخص تنہا جا رہا ہے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
مری بقا کا راز ہے مسافرت مسافرت
سو نقش پا بغیر میرے ساز و رخت میں نہیں
جسم کے بیاباں میں درد کی دعا مانگیں
پھر کسی مسافر سے روشنی ذرا مانگیں
فانی دنیا کے اس مسافر نے
وہ بھی کھویا ہے جو نہیں پایا
میں مکیں ہوں نہ مکاں شہر محبت کا ظفرؔ
دل مسافر نہ کسی غیر کے گھر جائے گا
ذرا سکون بھی صحرا کے پیار نے نہ دیا
مسافروں کو ہوا نے پکارنے نہ دیا
ہر سمت سیہ گرد کی چادر سی تنی ہے
سورج کے مسافر بھی ادھر آئیں تو مر جائیں