mir taqi mir poetry
Welcome to our exploration of mir taqi mir poetry! Mir Taqi Mir was a famous poet who lived in India long ago. His poems talk about love, sadness, and spirituality in a beautiful way everyone can understand. In this journey, we’ll dive into Mir’s poetry to feel the emotions he wrote about. Come along as we discover the magic hidden in his words!
لذت سے نہیں خالی جانوں کا کھپاجانا
کب خضر و مسیحا نے مرنے کا مزا جانا
چشم دل کھول اس بھی عالم پر
یاں کی اوقات خواب کی سی ہے
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
کیا جانوں چشم تر سے ادھر دل کو کیا ہوا
کس کو خبر ہے میر سمندر کے پار کی
لائی تری گلی تک آوارگی ہماری
ذلت کی اپنی اب ہم عزت کیا کریں گے
میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے
ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
mir taqi mir poetry
چشم و دل و جگر یہ سارے ہوئے پریشاں
کس کس کی تیرے غم میں حالت تباہ دیکھوں
کیا چال یہ نکالی ہو کر جوان تم نے
اب جب چلو ہو دل کو ٹھوکر لگا کرے ہے
کہتے تھے اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے لیک
وہ آ گیا تو سامنے اس کے نہ آئی بات
پاس ناموس عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے
دکھائی دیئے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
مجھے کام رونے سے اکثر ہے ناصح
تو کب تک مرے منہ کو دھوتا رہے گا
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
کاسۂ چشم لے کے جوں نرگس
ہم نے دیدار کی گدائی کی
عمر گزری دوائیں کرتے میر
درد دل کا ہوا نہ چارہ ہنوز
دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا
بن جو کچھ بن سکے جوانی میں
رات تو تھوڑی ہے بہت ہے سانگ
meer taqi meer best poetry in urdu
عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
خوبرو اب نہیں ہیں گندم گوں
میر ہندوستاں میں کال پڑا
وصل میں رنگ اڑ گیا میرا
کیا جدائی کو منہ دکھاؤں گا
دل نے کیا کیا نہ درد رات دیے
جیسے پکتا رہے کوئی پھوڑا
لذت سے نہیں خالی جانوں کا کھپا جانا
کب خضر و مسیحا نے مرنے کا مزہ جانا
اے شور قیامت ہم سوتے ہی نہ رہ جاویں
اس راہ سے نکلے تو ہم کو بھی جگا جانا
دل کی بربادی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
جی گیا اس کے تیر کے ہمراہ
تھی تواضع ضرور مہماں کی
اس کے ایفائے عہد تک نہ جیے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی
اتنا ہوں ناتواں کہ در دل سے اب گلہ
آتا ہے ایک عمر میں میری زباں تلک
الم سے یاں تئیں میں مشق ناتوانی کی
کہ میری جان نے تن پر مرے گرانی کی
باریک وہ کمر ہے ایسی کہ بال کیا ہے
دل ہاتھ جو نہ آوے اس کا خیال کیا ہے
خر عدم سے کچھ بھی نہ اکھڑا مرا میاں
مجھ کو تھا دست غیب پکڑ لی تیری کمر
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی
جب کہ پہلو سے یار اٹھتا ہے
درد بے اختیار اٹھتا ہے
meer taqi meer poetry in urdu 2 lines
کتنے دنوں میں آئی تھی اس کی شب وصال
باہم رہی لڑائی سو وہ رات بھی گئی
رہتا ہوں سدا مرنے کے نزدیک ہی اب میر
اس جان کے دشمن سے بھلا یار ہوا میں
پوچھا جو میں نے درد محبّت سے میر کو
رکھ ہاتھ ان نے دل پہ ٹک اک اپنے رو دیا
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
بے وفائی پہ تیری جی ہے فدا
قہر ہوتا جو باوفا ہوتا
عشق اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئ
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
ہوگا کسی دیوار کے سائے میں پڑا میر
کیا ربط محبت سے اس آرام طلب کو
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ
meer taqi meer ghazal
ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ
وہ نمک چھڑکے ہے مزہ ہے یہ
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ
بود آدم نمود شبنم ہے
ایک دو دم میں پھر ہوا ہے یہ
شکر اس کی جفا کا ہو نہ سکا
دل سے اپنے ہمیں گلہ ہے یہ
شور سے اپنے حشر ہے پردہ
یوں نہیں جانتا کہ کیا ہے یہ
بس ہوا ناز ہو چکا اغماض
ہر گھڑی ہم سے کیا ادا ہے یہ
نعشیں اٹھتی ہیں آج یاروں کی
آن بیٹھو تو خوش نما ہے یہ
دیکھ بے دم مجھے لگا کہنے
ہے تو مردہ سا پر بلا ہے یہ
میں تو چپ ہوں وہ ہونٹ چاٹے ہے
کیا کہوں ریجھنے کی جا ہے یہ
ہے رے بے گانگی کبھو ان نے
نہ کہا یہ کہ آشنا ہے یہ
تیغ پر ہاتھ دم بہ دم کب تک
اک لگا چک کہ مدعا ہے یہ
میر کو کیوں نہ مغتنم جانے
اگلے لوگوں میں اک رہا ہے یہ
میر تقی میر
بند قبا کو خوباں جس وقت وا کریں گے
خمیازہ کش جو ہوں گے ملنے کے کیا کریں گے
رونا یہی ہے مجھ کو تیری جفا سے ہر دم
یہ دل دماغ دونوں کب تک وفا کریں گے
ہے دین سر کا دینا گردن پہ اپنی خوباں
جیتے ہیں تو تمہارا یہ قرض ادا کریں گے
درویش ہیں ہم آخر دو اک نگہ کی رخصت
گوشے میں بیٹھے پیارے تم کو دعا کریں گے
آخر تو روزے آئے دو چار روز ہم بھی
ترسا بچوں میں جا کر دارو پیا کریں گے
کچھ تو کہے گا ہم کو خاموش دیکھ کر وہ
اس بات کے لیے اب چپ ہی رہا کریں گے
عالم مرے ہے تجھ پر آئی اگر قیامت
تیری گلی کے ہر سو محشر ہوا کریں گے
دامان دشت سوکھا ابروں کی بے تہی سے
جنگل میں رونے کو اب ہم بھی چلا کریں گے
لائی تری گلی تک آوارگی ہماری
ذلت کی اپنی اب ہم عزت کیا کریں گے
احوال میر کیوں کر آخر ہو ایک شب میں
اک عمر ہم یہ قصہ تم سے کہا کریں گے
میر تقی میر
Also, read another amazing post: