killer attitude poetry text
Sometimes, words can be a powerful way to express your confidence, strength, and individuality. killer attitude poetry text is a collection of verses that celebrates your unique style, sass, and spirit. Join us as we share bold, vibrant, and empowering poems that inspire you to embrace your attitude and slay the day!”
Note: Shayari is a form of Urdu poetry often used to express emotions, thoughts, and ideas concisely and creatively. In this context, “Attitude Stylish Shayari” refers to poems that reflect a confident and stylish attitude. Also, read another best personality attitude poetry.
پرکھنے والے پرکھیں گے اسی معیار پر ہم کو
جہاں سے کیا لیا ہم نے جہاں کو کیا دیا ہم نے
فن جو معیار تک نہیں پہنچا
اپنے شہکار تک نہیں پہنچا
killer attitude poetry text
جن حوصلوں سے میرا جنوں مطمئن نہ تھا
وہ حوصلے زمانے کے معیار ہو گئے
ہم اہل دل نے معیار محبت بھی بدل ڈالے
جو غم ہر فرد کا غم ہے اسی کو غم سمجھتے ہیں
جھوٹ سچ میں کوئی پہچان کرے بھی کیسے
جو حقیقت کا ہی معیار فسانہ ٹھہرا
پوری نہ ادھوری ہوں نہ کم تر ہوں نہ برتر
انسان ہوں انسان کے معیار میں دیکھیں
گر نہ جائے ترے معیار سے انداز حروف
یوں کبھی نام بھی تیرا نہیں لکھا میں نے
اس کے معیار پر خدا لائے
اس نظر تک تو آ گئے ہیں ہم
یہی لہجہ تھا کہ معیار سخن ٹھہرا تھا
اب اسی لہجۂ بے باک سے خوف آتا ہے
کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو
stylish poetry text
ہمیں پہ ختم ہے معیار گلشن ہستی
ہمارے بعد نہ خوشبو چمن سے آئے گی
میں دنیا کے معیار پہ پورا نہیں اترا
دنیا مرے معیار پہ پوری نہیں اتری
غزل کہنے میں یوں تو کوئی دشواری نہیں ہوتی
مگر اک مسئلہ یہ ہے کہ معیاری نہیں ہوتی
ہم اپنی ریاست کےنواب لوگ
تیرے معیار کے محتاج نہیں
میرے معیار کا تقاضا ہے ۔۔۔
میرا ھمسفر بھی نمازی ہو
خوبصورت ہے چاند بھی مگر
وہ زمین زادی الگ ہی معیار رکھتی ہے
اب میرے تعارف سے گریزاں ہے تو لیکن
کل تک تری پہچان کا معیار بھی میں تھا
ہر ایک شہر کا معیار مختلف دیکھا
کہیں پہ سر کہیں پگڑی کا احترام ہوا
اب میرے تعارف سے گریزاں ہے تو لیکن
کل تک تری پہچان کا معیار بھی میں تھا
چھوڑا ھے میدان کچھ عرصے کےلیے۔
تاکہ دشمن میرے معیار تک آجائے
stylish shayari urdu
سب کو اپنا معیار اونچا رکھنا ہے
یہاں پیدا ہو رہے سب لڑنے کے لیے
کردار سے بنائیں، معیار زندگی
ماحول سے، حیات کا سودا نہ کیجئے
حجتیں وصل کی جب یاد دلائیں ان کو
بولے وہ شرم کا انداز تھا انکار نہ تھا
پہلے اس میں اک ادا تھی ناز تھا انداز تھا
روٹھنا اب تو تری عادت میں شامل ہو گیا
قد کا اندازہ تمہیں ہو جائے گا
اپنے سائے کو گھٹا کر دیکھنا
دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
اک یہ بھی تو انداز علاج غم جاں ہے
اے چارہ گرو درد بڑھا کیوں نہیں دیتے
گرد کی طرح سر راہ گزر بیٹھے ہیں
ان دنوں اور ہی انداز سفر ہے اپنا
یہ دلبری یہ ناز یہ انداز یہ جمال
انساں کرے اگر نہ تری چاہ کیا کرے
کچھ طرز ستم بھی ہے کچھ انداز وفا بھی
کھلتا نہیں حال ان کی طبیعت کا ذرا بھی
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
تیرا انداز نرالا سب سے
تیر تو ایک نشانے کیا کیا
دل بے تاب کا انداز بیاں ہے ورنہ
شکر میں کون سی شے ہے جو شکایت میں نہیں
دیار عشق ہے یہ ظرف دل کی جانچ ہوتی ہے
یہاں پوشاک سے اندازہ انساں کا نہیں ہوتا
اب نہ وہ جوش وفا ہے نہ وہ انداز طلب
اب بھی لیکن ترے کوچے سے گزر ہوتا ہے
میری دنیا میں ابھی رقص شرر ہوتا ہے
جو بھی ہوتا ہے بہ انداز دگر ہوتا ہے
تو مرے صبر کا اندازہ لگا سکتا ہے
تیری صحبت میں ترا ہجر گزارا ہے میاں
نہ ملا پر نہ ملا عشق کو انداز جنوں
ہم نے مجنوں کی بھی آشفتہ سری دیکھی ہے
ہاں سمندر میں اتر لیکن ابھرنے کی بھی سوچ
ڈوبنے سے پہلے گہرائی کا اندازہ لگا
عجب انداز کے شام و سحر ہیں
کوئی تصویر ہو جیسے ادھوری
کبھی جنت کبھی دوزخ کبھی کعبہ کبھی دیر
عجب انداز سے تعمیر ہوا خانۂ دل
ہزار کوس نگاہوں سے دل کی منزل تک
کوئی قریب سے دیکھے تو ہم کو پہچانے
متاع درد پرکھنا تو بس کی بات نہیں
جو تجھ کو دیکھ کے آئے وہ ہم کو پہچانے
ساری دنیا ہمیں پہچانتی ہے
کوئی ہم سا بھی نہ تنہا ہوگا
بس اس کی پہچان یہی ہے
آنکھ میں آنسو بھرنے والا
انجان اگر ہو تو گزر کیوں نہیں جاتے
پہچان رہے ہو تو ٹھہر کیوں نہیں جاتے
میری پوشاک تو پہچان نہیں ہے میری
دل میں بھی جھانک مری ظاہری حالت پہ نہ جا
بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
مجھ کو منزل بھی نہ پہچان سکی
میں کہ جب گرد سفر سے نکلا
جن کے مضبوط ارادے بنے پہچان ان کی
منزلیں آپ ہی ہو جاتی ہیں آسان ان کی
بند رہتے ہیں جو الفاظ کتابوں میں صدا
گردش وقت مٹا دیتی ہے پہچان ان کی
مرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا
وہ پیرہن مجھے بخشا کہ پارہ پارہ نہیں
گوارا ہی نہ تھی جن کو جدائی میری دم بھر کی
انہیں سے آج میری شکل پہچانی نہیں جاتی
کبھی اک بار ہولے سے پکارا تھا مجھے تم نے
کسی کی مجھ سے اب آواز پہچانی نہیں جاتی
تم کو بھی پہچان نہیں ہے شاید میری الجھن کی
لیکن ہم ملتے رہتے تو اچھا ہی رہتا جانم
میں اب تو شہر میں اس بات سے پہچانا جاتا ہوں
تمہارا ذکر کرنا اور کرتے ہی چلے جانا
یہ کہہ کے اس نے گل کیا شمع مزار کو
جب سو گئے تو کیا ہے ضرورت چراغ کی
چراغ زندگی ہوگا فروزاں ہم نہیں ہوں گے
چمن میں آئے گی فصل بہاراں ہم نہیں ہوں گے
اب چراغوں میں زندگی کم ہے
دل جلاؤ کہ روشنی کم ہے
Also, read another best attitude Shayari post: