Best Khayal poetry in urdu
The enchanting world of khayal poetry in Urdu, where words weave a tapestry of dreams, imagination, and creativity. This poetry transports us to a world of beauty, hope, and inspiration, inviting us to explore the depths of our imagination. you must also read another amazing poetry.
ٹھکرا کے چلے جانا ہے برحق تمہیں لیکن
بس رکھنا خیال اتنا جہاں کو نہ خبر ہو
چھونے والا تری جبیں کو
میرا دست خیال ہوگا
khayal poetry in urdu text
اتر رہا تھا لہو کس بلا کا آنکھوں میں
ترے خیال میں اس دم ضرور میں بھی تھا
آخر آنا پڑے گا میرے لیے
تجھ کو میرے خیال کھینچیں گے
خرام ناز میں ان کو یہ کب خیال ہوا
کہ دل کسی کا پسا کوئی پائمال ہوا
جو وصل یار کی تدبیر کی وصال ہوا
خیال عیش کا آیا تو اک ملال ہوا
شراب کا شغل ہو رہا ہے بغل میں پاتا ہوں میں کسی کو
میں جاگتا ہوں کہ سو رہا ہوں خیال میں ہوں کہ خواب میں ہوں
ہے ضعیفی میں بھی ہم کو نوجوانی کا خیال
دل نہیں ہارا ہے اب تک گو کہ ہارے ہاتھ پاؤں
ستارے جذب ہوئے گرد راہ میں کیا کیا
خیال و خواب کے آئیں بدل گئے کیسے
خیال جن کا ہمیں روز و شب ستاتا ہے
کبھی انہیں بھی ہمارا خیال آتا ہے
سنگیں حقیقتوں سے کہاں تک ملول ہوں
رعنائی خیال کو برباد کیا کریں
تازہ کاری نے وہاں کر دیئے عالم ایجاد
ہم ترستے ہی رہے تازہ خیالوں کے لیے
کتنے سنگین حقائق سے نچوڑا ہے لہو
چند خوابوں کے لیے چند خیالوں کے لیے
بھری بہار کے دن ہیں خیال آ ہی گیا
اجڑ نہ جاتا تو پھولوں میں آشیاں ہوتا
یادش بخیر دل کا خیال آ کے رہ گیا
اس بے دلی میں جیتے ہیں کس بے حسی سے ہم
میں خواب پڑھتا تھا ہمسائیگی کی ابجد سے
مگر وہ حسن خیالا نہیں گیا مجھ سے
ہم اپنے ساتھ لئے پھر رہے ہیں پچھتاوا
خیال لوٹ کے جانے کا گام گام ہوا
خیال آتا ہے رہ رہ کے لوٹ جانے کا
سفر سے پہلے ہمیں اپنے گھر جلانے تھے
urdu poetry on khayal
گل رویوں کے خیال نے گلشن بنا دیا
سینہ کبھی مدینہ کبھی کربلا ہوا
تو محو گل بن و گلزار ہو گیا آسیؔ
تری نظر میں جمال خیال یار نہ تھا
مری راکھ میں تھیں کہیں کہیں میرے ایک خواب کی کرچیاں
میرے جسم و جاں میں چھپا ہوا تری قربتوں کا خیال تھا
توڑ دیتے جو حوصلہ آتشؔ
ان خیالوں سے فاصلہ رکھا
خیال یار کا جلوہ یہاں بھی تھا وہاں بھی تھا
زمیں پر پاؤں تھے میرے نظر میں آسماں بھی تھا
ملی ہے عازمؔ سخن یہ کیسی تیرگی تجھے
ترے خیال میں جو اتنی روشنی بڑھا گئی
ہجر کی شب زلف برہم کا خیال آتا رہا
اک نہ اک ہر دن مرے سر پر وبال آتا رہا
بھولنے والے کو آخر دل بھلائے کس طرح
بے خیالی میں بھی جب اس کا خیال آتا رہا
khayal poetry in urdu sms
مجھ کو بیخودؔ جب کبھی آیا ہے توبہ کا خیال
دیر تک اپنے گناہوں کا خیال آتا رہا
مرے خیال نے خلوت کو کر دیا محفل
تری نگاہ نے خلوت بنایا محفل کو
نہ جانے دل کا تجھے کچھ خیال ہے کہ نہیں
ترا خیال تو وجہ نشاط ہے دل کو
تری وفا کا ہوا تھا کبھی گماں مجھ کو
وہی خیال ہوا عیش جاوداں مجھ کو
بیخودؔ کی بے خودی بھی ہے تیرے خیال میں
تیری خودی نہیں کہ تغافل شعار ہو
کوئی ملول سی خوشبو فضا میں تیر گئی
کسی خیال کے حرف و صدا میں ڈھلتے ہی
کسی خیال کے نشے میں دن گزرتے رہے
میں اپنی عمر کے انیسویں برس میں رہا
کسی نے پھر سے کھڑے کر دیے در و دیوار
خیال تھا کہ مرا انہدام آخری ہے
یوں ہی خیال آتا ہے بانہوں کو دیکھ کر
ان ٹہنیوں پہ جھولنے والا کوئی تو ہو
اس کا خیال خواب کے در سے نکل گیا
پھر میں بھی اپنے دیدۂ تر سے نکل گیا
میرے ہی ساتھ گھر میں نظر بند تھا تو پھر
تیرا خیال کون سے در سے نکل گیا
کف خیال پہ عکس نشاط رنگ ترا
نہیں بنانے کا یارا مگر بناتے ہیں
نگہ میں گھومتی پھرتی ہیں صورتیں کیا کیا
کسے خیال میں لائیں کسے خراب کریں
یہ ہم جو ہجر میں اس کا خیال باندھتے ہیں
ہوا کی شاخ سے بوئے وصال باندھتے ہیں
سبھی کو شوق اسیری ہے اپنی اپنی جگہ
وہ ہم کو اور ہم ان کا خیال باندھتے ہیں
کھلے ہیں پھول کی صورت ترے وصال کے دن
ترے جمال کی راتیں ترے خیال کے دن
خیال کیا ہے جو الفاظ تک نہ پہنچے سازؔ
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
مرنے کی پختہ خیالی میں جینے کی خامی رہنے دو
یہ استدلالی ترک کرو بس استفہامی رہنے دو
افق پہ حسن ادا کے طلوع مہر خیال
فضائے شعر سحر کی لطافتیں مانگے
شعاع مہر سے دھل جائیں جیسے ماہ و نجم
ترا خیال انوکھی طہارتیں مانگے
جو ذہن، آگہی کی کار گاہ تھے
خیال کی دکان بن کے رہ گئے
دل کس کے جمال میں ہوا گم
اکثر یہ خیال ہی نہ آیا
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں
اے دوست تیری زلف پریشاں کی خیر ہو
میری تباہیوں کا نہ اتنا خیال کر
حسن کو آتا ہے جب اپنی ضرورت کا خیال
عشق پر لطف کی برسات بھی ہو جاتی ہے
غم فردا کا استقبال کرنے
خیال عہد ماضی آ رہا ہے
کچھ اس پاکیزگی سے کی ہے توبہ
خیالوں پر نشہ سا چھا رہا ہے
وہ چیز جسے زندگی کہتے ہیں وہ کیا ہے
ہنستے ہوئے شفاف خیالات کا عالم
میں وہ مسافر روشن خیال ہوں یارو
جو راستے میں بھی آرام لیتے رہتے ہیں
خیال آتا ہے جب بھی دلبروں کی ہم نشینی کا
تلاطم رنگ کے خوشبو کے طوفاں یاد آتے ہیں
دنیا کے کاروبار سے مطلب نہیں مجیدؔ
دل کو خیال یار سے بہلا رہے ہیں ہم
ہے اپنی اپنی پیاس کا ہر ایک کو خیال
دریا بھی ہے سراب کوئی جانتا نہیں
خیالوں سے ہے کوسوں دور لیکن
نگاہوں میں وہ اکثر سامنے ہے
آ گیا جب آ گیا ان کو خیال التفات
اپنے شوق دل کو بزمیؔ نارسا سمجھا تھا میں
شہر دل کی تمہیں آبادی کا کچھ بھی ہے خیال
یا جہاں رہیے گا ویراں ہی وہاں کیجئے گا
آوے نظر جو لام تو آوے خیال زلف
جب سین پڑھ کے دیکھوں ہوں دنداں مسین کو