khanjar poetry in urdu
Urdu literature is full of different styles, of khanjar poetry in urdu is one of the most powerful. The word “khanjar” means “dagger,” and this poetry uses sharp and strong words. Khanjar’s Poetry talks about deep feelings like pain, betrayal, and love in a very direct way.
In this blog, we will look at Khanjar Poetry more closely. We will learn where it started, what makes it special, and why people still love it today. Join us as we explore the intense and passionate world of Khanjar Poetry in Urdu. Also, read another Badnaam post.
تشنہ لب دھرتی پہ جب بہتا ہے پیاسوں کا لہو
مدتوں مقتل میں سر خم رہتے ہیں خنجر تمام
نہ مڑ کر تو نے دیکھا اور نہ میں تڑپا نہ خنجر
نہ دل ہووے گا تیرا سا نہ میرا سا جگر ہوگا
جگر موجود ہے تو وہ بنا لے جس کا جی چاہے
گلا حاضر ہے خنجر آزما لے جس کا جی چاہے
آج مقتل میں کھڑے کہتے ہیں وہ خنجر بکف
بول اٹھے چاہنے والا ہمارا کون ہے
تیرے قربان میں اتنا تو بتا دے قاتل
میری گردن پہ چلا خنجر براں کیسا
khanjar poetry in urdu
زبان لالہ و گل میں بسی ہوئی ہے مگر
زمانہ لفظ میں خنجر کی دھار مانگے ہے
تمہاری یاد کے چرکوں سے لخت لخت ہے جی
کہ خنجروں سے کسی نے بدن کو قاشا ہے
ان ابروؤں سے کہو کشتنی میں جان بھی ہے
اسی کے واسطے خنجر کھنچا ہے خنجر پر
ہر طرح کے پھول ہیں دل کی زمیں پر دیکھیے
کس طرح کہہ دوں نہیں سینے سے خنجر آشنا
تری یادوں کے خنجر ذہن کو جب چاک کرتے ہیں
اسے جھوٹی تسلی سے رفو کرتا ہے دل میرا
مرے خلوص پہ شک کی تو کوئی وجہ نہیں
مرے لباس میں خنجر اگر چھپا نکلا
یہ تو کہتے ہو کہ خود میں نے کٹائی گردن
کوئی ہاتھوں میں ہوا کے بھی تو خنجر دیکھو
انا مجروح ہو جاتی قدم پیچھے اگر ہٹتے
بنائے قرب دوہری دھار کے خنجر پہ رکھی تھی
اپنے سینے کے منا میں بھی تہ خنجر عشق
جب کوئی فدیہ بدلتا ہے غزل ہوتی ہے
نہ ادا مجھ سے ہوا اس ستم ایجاد کا حق
میری گردن پہ رہا خنجر بیداد کا حق
مرے پہلو و سینہ میں بتوں کے رہ گئے خنجر
خدا کا فضل جس پر ہو تو وہ اس طرح بہلتا ہے
سمجھ لیا تھا جنہیں میں نے روشنی کا سفیر
وہ آستین میں خنجر چھپا کے لائے تھے
نفس کے لوچ کو خنجر بنانا چاہتی ہے
محبت اپنی تیزی آزمانا چاہتی ہے
اے شاخ تمنا تجھے تنہا نہیں کرتے
خنجر تجھے پڑتے ہیں پہ ہوتے ہیں قلم ہم
کھینچ لائی جانب دریا ہمیں بھی تشنگی
اب گلوئے خشک کا خنجر پہ رم ہونے کو ہے
ہم نے ہر دور کے سینے میں ہیں گھونپے خنجر
اور ہر دور کے سینے سے لہو ٹپکا ہے
شام ہرگز دن کے سینے میں نہ خنجر گھونپتی
یہ اگر معلوم ہوتا خوں بہا مانگے گی رات
لب پہ اخلاص ہاتھ میں خنجر
کیسے یاروں کے درمیان ہوں میں
قاتل نگہ کوں پوچھتے کیا ہو کہ کیا کہو
خنجر کہو کٹار کہو نیمچا کہو
khanjar poetry in urdu text
کس پیار سے گیا تھا تری آستیں کے پاس
شاخ حنا کی چاہ میں خنجر ملا مجھے
اداس رات میں تارے گواہ بنتے ہیں
رگ حباب سے تو قاتلانہ خنجر کھینچ
حال میرا خنجر ماضی سے زخمی ہو گیا
رو رہا ہے میرا مستقبل کسے آواز دوں
رقص کرتے ہوئے لمحوں کی زباں گنگ ہوئی
اپنے سینے میں جو اترا ہوا خنجر دیکھا
آئے دہان زخم سے آواز اور اور
اس اس ادا و ناز سے خنجر لگائیے
خدا کے واسطے سفاکیاں یہ کس سے سیکھی ہیں
نظر سے پیار مانگا تھا وہ اک خنجر اٹھا لائی
خوں ریز جس قدر ہیں وہ رہتے ہیں سرنگوں
خنجر ہوا کٹار ہوئی یا چھری ہوئی
خوں ریز جس قدر ہیں وہ رہتے ہیں سرنگوں
خنجر ہوا کٹار ہوئی یا چھری ہوئی
رقص کرتے ہوئے لمحوں کی زباں گنگ ہوئی
اپنے سینے میں جو اترا ہوا خنجر دیکھا
آئے دہان زخم سے آواز اور اور
اس اس ادا و ناز سے خنجر لگائیے
خدا کے واسطے سفاکیاں یہ کس سے سیکھی ہیں
نظر سے پیار مانگا تھا وہ اک خنجر اٹھا لائی
خوں ریز جس قدر ہیں وہ رہتے ہیں سرنگوں
خنجر ہوا کٹار ہوئی یا چھری ہوئی
چلے گا نہیں مجھ پہ فقرا تمہارا
ہٹا لو کہ خنجر ہے جھوٹا تمہارا
دکھا رہا ہے مجھے سبز باغ جو برقیؔ
وہ لے کے پھرتا ہے کیوں آستیں میں خنجر آج
دکھا رہا ہے مجھے سبز باغ جو برقیؔ
وہ لے کے پھرتا ہے کیوں آستیں میں خنجر آج
شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر
میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا
دست قاتل سے کچھ امید شفا تھی لیکن
نوک خنجر سے بھی کانٹا نہ گلو کا نکلا
خنجر در آستیں ہی ملا جب کبھی ملا
وہ تیغ کھینچتا تو یہ سر بھی اسی کا تھا
ہر سوچ پہ خنجر سا گزر جاتا ہے دل سے
حیراں ہوں کہ سوچوں تو کس انداز میں سوچوں
میں ایک بار اسے پھیروں گا اپنی گردن پر
اور آپ بس مرے خنجر کی دھار دیکھئے گا
یوں بھی گزریں گی ترے ہجر میں راتیں میری
چاند بھی جیسے مرے سینے میں خنجر ہوگا
بہار خنجر بہ دست آئی
ہر اک منظر لہو لہو ہے
میں سر کو چھپانے سے پہلے جہاں کا ہدف دیکھتا ہوں
مہکتے ہوئے نیک پھولوں کو خنجر بکف دیکھتا ہوں
منتظر ہوں میں کفن باندھ کے سر سے عاجزؔ
سامنے سے کوئی خنجر نہیں آیا اب تک
غیروں ہی پہ چلتا ہے جو اب ناز کا خنجر
کیوں بیچ میں لایا تھا مجھے بانکپن ان کا
خدا گواہ کہ ان میں وہی ہلاکت ہے
یہ تیغ و تیر یہ خنجر اسی سے ملتے ہیں
ہائے کیا قہر ہے مرحوم جوانی کی یاد
دل سے کہتی ہے کہ خنجر کی روانی ہوں میں
تم اور ذرا قریب آ جاؤ
خنجر رگ جاں تک آ گیا ہے
خنجر ہو یا کہ دشنہ ہو یا تیغ یا قلم
اخترؔ وہ آب اور وہ برش کہاں ہے اب
ہماری آنکھ نے دیکھے ہیں ایسے منظر بھی
گلوں کی شاخ سے لٹکے ہوئے تھے خنجر بھی
ابھی اور تیز کر لے سر خنجر ادا کو
مرے خوں کی ہے ضرورت تری شوخئ حنا کو
بس اسی کو توڑنا ہے یہ جنون نفع خوری
یہی ایک سرد خنجر دل روزگار میں ہے
عشق ہے سادہ و معصوم اسے اپنی طرح
جوہر تیغ ادا خنجر عیاری دے
بات خنجر کی طرح چبھتی ہے
دل کا اچھا ہے کیا کیا جائے
کتنا کالا ہو گیا تھا اس کا دل
جسم سے نکلا تو تھا خنجر سیاہ