Islamic story tale in Urdu
This Islamic story tale in Urdu will help boost your blessing energy and bless your life with this Islamic Story in Urdu. So let’s get started Lesson from this Islamic story in Urdu. Also, read other Islamic stories.
باکمال وبے مثال لوگ
حضرت سیدنا ابو جہم بن حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:” غزوہ یرموک کے دن میں اپنے چچا زاد بھائی کو تلاش کر رہا تھا اور میرے پاس ایک بر تن میں پانی تھا۔ میرا یہ ارادہ تھا کہ میں زخمیوں کو پانی پلاؤں گا ۔اتنی ہی دیر میں مجھے میرے چچا زاد بھائی نظر آئے۔میں ان کی طر ف لپکا دیکھاتو وہ زخموں سے چُورچُوراور خون میں لت پت تھے، میں نے ان کے چہرے سے خون صاف کیا اور پوچھا :” کیا تم پانی پیؤ گے؟” انہوں نے گردن کے اشارے سے ہاں کی تو میں نے پانی کا پیالہ ان کی طرف بڑھا دیا ۔
ابھی انہوں نے برتن منہ کے قریب ہی کیا تھاکہ اچانک کسی زخمی کے کراہنے کی آواز آئی ، فوراً پیالہ میری طر ف بڑھایا اور کہا: ”جاؤ، پہلے اس زخمی کو پانی پلاؤ۔” میں دوڑ کر وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ حضرت سیدنا عمر و بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی حضرت سیدنا ہشام بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ میں نے ان سے پوچھا :”کیا تم پانی پینا چاہتے ہو؟ ”انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ میں نے ان کو پانی دیا ۔اتنے میں ایک اور زخمی کی آواز آئی ، تو انہوں نے فرمایا :”جاؤ ،پہلے میرے اس زخمی بھائی کو پانی پلاؤ۔” میں دوڑ کر وہاں پہنچا تووہ بھی جامِ شہادت نوش فرما چکے تھے،میں واپس حضرت سیدنا ہشام بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پا س آیا تو وہ بھی اپنے خالقِ حقیقی عزوجل کی بارگاہ میں جا چکے تھے۔ پھر میں اپنے چچا زاد بھائی کے پاس آیا تووہ بھی واصلِ بحق ہو چکے تھے۔
امام واقدی اور حضرت سیدنا ابن الا عرابی ر حمہمااللہ تعالیٰ سے مروی ہے :” حضرت سیدنا عکرمہ بن ابو جہلرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب پانی دیا گیا تو انہوں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا سہل بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شدید پیاس میں مبتلا ہیں اور ان کی طر ف دیکھ رہے ہیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پانی نہ پیا، اور فرمایا: ”جاؤ، پہلے میرے بھائی کو پانی پلاؤ۔”
جب ان کو پانی دیا گیا توانہوں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا حارث بن ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شدید زخمی حالت میں ہیں،اورشدّتِ پیاس کی وجہ سے ان کی طرف دیکھ رہے ہیں تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:” جاؤ،پہلے میرے بھائی کو پانی پلاؤ ، جب ان کے پاس پہنچے تووہ بھی دم تو ڑ چکے تھے۔دوبارہ جب حضرت سیدناسہل بن حارث اور حضرت سیدناعکرمہ بن ابو جہل رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے پاس گئے تووہ بھی جاں بحق ہو چکے تھے۔
حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ان کے پاس سے گزرے تو ارشادفرمایا:”تم جیسے عظیم لوگو ں پر میری جان قربان ہو ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
islamic story tale in urdu
آسمانی لشکر
حضرت سیدنا ابو عتبہ الخوّاص علیہ رحمۃاللہ الرزّاق فرماتے ہیں:میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو ان عظیم ہستیوں میں سے تھا جنہوں نے اپنے آپ کو عبادت الٰہی عزوجل کے لئے وقف کررکھا تھا اور لوگو ں کی نظروں سے اوجھل ہوکر پہاڑوں میں عبادت کیا کرتے تھے ۔ اس شخص نے مجھے بتایا: ”دنیا میں مجھے اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ اور ابدالوں سے ملاقات کرنے اور ان کی صحبت سے برکتیں لوٹنے سے زیادہ کوئی چیز مرغوب ومحبوب نہ تھی،میں بزرگوں کی تلاش میں جگہ جگہ پھرتا، جنگلوں اور پہاڑوں میں جاتا اس اُمید پر کہ شاید کسی اللہ عزوجل کے ولی سے ملاقات ہوجائے ۔”
ایک مرتبہ اسی طرح گھومتا پھر تامیں ايک ایسے ساحل پرپہنچ گیا جہاں بالکل آبادی نہ تھی اور نہ ہی اس ساحل کی طر ف کشتیاں آتی تھیں، وہ ایک ویران جگہ تھی، اچانک میری نظر ایک شخص پر پڑی جو پہاڑ کی اوٹ سے آرہا تھا، جب اس نے مجھے دیکھا تو ایک طر ف دوڑ لگادی ۔میں بھی اس کی طرف دوڑا کہ شاید یہ کوئی اللہ عزوجل کا ولی ہے ،میں اس سے ملاقات ضرور کروں گا، میں اس کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا کہ اچانک اس کا پاؤں پھسلا اور وہ گرپڑا ، میں اس کے قریب پہنچ گیا اور اس سے پوچھا: ”اے اللہ عزوجلکے بندے !تُو مجھ سے خوفزدہ ہو کر کیوں بھاگ رہا ہے ؟”
وہ خاموش رہا اور مجھ سے کوئی بات نہ کی ۔” میں نے اس سے کہا:”میں تو تجھ سے نصیحت آموز اور خیر کی باتیں سنناچاہتا ہوں، مجھے کچھ خیر وبھلائی کی باتیں بتاؤ۔”یہ سن کر وہ شخص کہنے لگا: ”تم جہاں بھی رہو حق کو اپنے اوپر لازم کر لو،اللہ عزوجل کی قسم !میں اپنی ایسی اچھا ئیاں نہیں پاتا جن کی مثل تمہیں دعوت دوں کہ تم بھی ایسی ہی اچھائیاں کرو۔” پھر اس شخص نے چیخ ماری اور زمین پر گرپڑا۔جب اسے دیکھاتوپتاچلاکہ اس کی رو ح جسم سے جداہو چکی ہے۔
میں بہت پریشان ہوا کہ اس ویرانے میں اس کی تجہیز و تکفین کیسے کروں گا، یہاں میری مددکوکو ن آئے گا، یہاں تو دور دور تک آبادی کانام ونشان نہیں۔ میں اسی شش وپنج میں رہا یہاں تک کہ رات نے اپنے پر پھیلانا شروع کر دیئے اورہرطرف تاریکی چھاگئی۔ میں ایک طر ف جاکر بیٹھ گیا تھوڑی ہی دیر بعد مجھ پر نیند کا غلبہ ہوگیا ۔ میں نے خواب دیکھاکہ آسمان سے چار لشکر اس پہاڑ پر اُتر ے اور انہوں نے اس شخص کے لئے قبر کھودی ، پھر اسے کفن پہنایااور نمازِ جنازہ پڑھ کر اسے دفن کردیا ۔
اچانک میری آنکھ کھل گئی اور میں خواب سے بہت خوفزدہ تھا۔ باقی رات میں نے جاگ کر گزاری،نیند میری آنکھوں سے بہت دور تھی ۔جب صبح ہوئی تو میں اسی جگہ پہنچا جہاں اس شخص کو مردہ حالت میں چھوڑا تھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں اس کی لاش موجود نہ تھی۔میں نے خوب تلاش کیا لیکن اس کی لاش نہ مل سکی پھر مجھے وہاں سے کچھ فاصلہ پر ایک تازہ قبر نظر آئی، میں
سمجھ گیا کہ یہ وہی قبر ہے جسے میں نے خواب میں دیکھا تھا۔
؎محبت میں اپنی گما یا الٰہی عزوجل
نہ پاؤں میں اپنا پتا یا الٰہی عزوجل
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
دھوکے باز دُلہن
حضرت سیدنا ابو صالح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:” حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃاللہ المجید کویہ نصیحت آموز خط لکھا:
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ؕ
امَّا بَعد:اے امیر المؤمنین (علیہ رحمۃ اللہ المبین) !جان لیجئے کہ یہ دنیا دھوکے باز اور بے وفا ہے، یہ دائمی اقامت گا ہ نہیں ، حضرت سیدنا آدم علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو یہاں دنیا میںآزمائش کے لئے بھیجا گیا،تحقیق ایسے امور جن پر ثواب دیاجاتا ہے ان کا حساب لیا جائے گا اور جن پر عقاب ہے ان پر سزا ہوگی،خواہ ان پر ثواب وعذاب کا حق دار ہونے کا کسی کو علم ہو یا نہ ہو بہرحال حساب ضروری ہے، ہر دور میں دنیا کو پچھاڑنا ضروری ہے ، اور اس کو پچھاڑنا عام پچھاڑ نے کی مانند نہیں بلکہ جو اسے شکست دیتا ہے یہ اس کی تعظیم کرتی ہے ، اور جواس کی تعظیم کرتا ہے یہ اسے ذلیل وخوار کردیتی ہے ۔ہر دور میں یہ ڈائن (یعنی دنیا) کسی نہ کسی کو تباہ وبرباد ضرور کرتی ہے ، یہ میٹھے زہر کی مانند ہے کہ لوگ اسے فائدہ مند شئے سمجھ کر کھالیتے ہیں حالانکہ وہ ہلاکت خیز ہوتی ہے ۔ دنیا میں زادِ راہ یہ ہے کہ دنیوی آسائشوں کو تر ک کردیا جائے ، دنیا میں تنگدستی غناء ہے، جو یہاں فقر وفاقہ کا شکار ہے درحقیقت وہی غنی ہے ۔
اے امیر المومنین (علیہ رحمۃ اللہ المبین)! دنیا میں اس مریض کی طر ح رہو جو اپنے مرض کے علاج کی خاطر دواؤں کی سختی برداشت کر تاہے تاکہ اس کا زخم اورمرض مزید نہ بڑھے ، اس تھوڑی تکلیف کو برداشت کرلو جس کی وجہ سے بڑی تکلیف سے بچا جاسکے۔
بے شک عظمت اور فضیلت کے لائق وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ حق بات کہتے ہیں،انکساری وتو اضع سے چلتے ہیں ، انکارزق حلال وطیب ہوتا ہے،ہمیشہ حرام چیزوں سے اپنی نگاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں، وہ خشکی میں ایسے خوفزدہ رہتے ہیں جیسے سمندری مسافر ، اور خوشحالی میں ایسے دعائیں کرتے ہیں جیسے مصائب وآلام میں دعا کی جاتی ہے ۔اگر موت کا وقت متعین نہ ہوتا تو اللہ عزوجل سے ملاقات کے شوق ، ثواب کی امید اور عذاب کے خوف سے ان کی روحیں ان کے اجسام میں لمحہ بھر بھی نہ ٹھہرتیں ،خالقِ لم یَزَلْ کی عظمت اور ہیبت ان کے دلوں میں راسخ ہے اور مخلوق ان کی نظرو ں میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ (یعنی وہ فقط رضائے الٰہی عزوجل کے طلب گار ہوتے ہیں)
اے امیر المومنین (علیہ رحمۃ اللہ المبین) !جان لیجئے !” غور وفکر کرنا،اعمالِ صالحہ اور بھلائی کی طرف لے جاتا ہے ، گناہوں پر
ندامت اعمالِ قبیحہ کو چھوڑنے کی طرف لے جانے والی ہے ،فانی اشیاء اگر چہ کثیر ہوں باقی رہنے والی اشیاء کی مانند نہیں،اگرچہ لوگ فانی اشیاء کے زیادہ طالب ہیں۔اس تکلیف کا بر داشت کرلینا جس کے بعد طویل ودائمی راحت ہو، اس راحت کے حصول سے بہتر ہے جس کے بعد طویل غم والم،تکالیف اور ندامت وذلت کا سامنا کر نا پڑے ۔
اس بے وفا،شکست خوردہ اور ظالم دنیا سے آخرت کی زندگی کئی در جے بہتر ہے۔یہ دھوکے باز،لوگو ں کے سامنے مزّین ہوکر آتی ہے اور خوب دھوکا د ے کر تباہ و بر باد کرڈالتی ہے ،لوگ اس کی جھوٹی امیدوں کی وجہ سے ہلاکت میں پڑجاتے ہیں، یہ اس دھوکے باز دلہن کی طر ح ہے جو کسی کو نکاح کا پیغام دے ، پھر آراستہ وپیراستہ ہو کر سامنے آجائے، لوگ ا س پر فریفتہ ہو رہے ہوں ، اس کا بناوٹی حسن وجمال آنکھوں کو خیر ہ کرنے لگے، دل اس کی طرف مائل ہوجا ئیں، اس کی ظاہر ی خوبصورتی دل ودماغ پر چھا جائے ، پھر جب اس کا شوہر اس کے قریب جائے تو وہ اسے ظالمانہ انداز میں قتل کرڈالے۔
اے امیر المؤمنین( علیہ رحمۃ اللہ المبین) !گزرے ہوئے زمانے سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتااورنہ ہی موجودہ صورتحال سے لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں ،اورنہ ہی موجودہ لوگ گزرے ہوؤں سے عبرت حاصل کرتے ہیں ہر شخص اپنی ہی دنیا میں مگن ہے عقلمند لوگ بھی تجربہ کے باوجود اپنے تجربوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے،اور سمجھ دار لوگ بھی عبرت آموز واقعات سے درسِ عبرت حاصل نہیں کرتے ۔
اب تو صورتحال یہ ہے کہ ہر شخص اس ظالم دنیا کا شیدائی ہے ،اس کی محبت میں غرق ہوچکا ہے ، اور یہ محبت عشق کے درجے تک جاپہنچی ہے ، اس کا عاشق اس کو چھوڑ کر کسی اورشئے کی طر ف راغب ہوتا ہی نہیں،دنیا اور اس کا چاہنے والا دونوں ہی ایک دوسرے کے طلبگار ہیں۔ دنیا کا شیدائی یہ سمجھتا ہے کہ میں حصولِ دنیا کے بعد کامیاب ہوگیاہوں حالانکہ وہ ہلاکت کے عمیق گڑھوں میں گر چکا ہوتا ہے وہ دھوکا کھاکر اس کی محبت میں اس طر ح گر فتار ہو جاتا ہے کہ حساب وکتاب اور اپنے مقصدِ حیات کو بھول جاتا ہے ، اپنی نیکیوں کو ضائع کر بیٹھتا ہے ، پھر وہ اس بے وفا دنیا کے عشق میں اس قدر پاگل ہوجاتا ہے کہ اس کے قدم پھسل جاتے ہیں۔جب اسے ہوش آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ میں نے تو اپنی تمام زندگی غفلت میں گزاردی ، میں تو تباہ وبر باد ہوگیا مجھے تو بہت بڑا دھوکا دیا گیا ،ہائے! میں نے جھوٹی امیدوں پر آسرا کیوں کیا؟ اب اس شخص کی پریشانی وغم قابل ِدید ہوتا ہے ، پھر حالتِ نزع میں سختیاں بڑھ جاتیں ہیں وہ پریشانیوں اور غموں کے سمندر میں غرق ہورہا ہوتا ہے ، وہی شخص جو اپنے تئیں کامیابی حاصل کر چکا تھا اب اسے معلوم ہوتا ہے کہ در حقیقت مَیں دھوکے باز دنیا سے بُری طر ح شکست کھاچکا ہوں ،پھر وہ عاشقِ ناشاد و نامراد اس دنیا سے اسی حالت میں رخصت ہوجاتا ہے ، اور بے وفا دنیا اس کا ساتھ چھوڑ کر کسی اور کو دھوکا دینے چلی جاتی ہے، اب یہ شخص دشوار گزار
سفر کی طر ف بغیرہم سفر اور بغیر زادِ راہ کے روانہ ہوتا ہے ۔
اے امیر المؤمنین (علیہ رحمۃ اللہ المبین) ! اس دنیا اور اس کی فریب کاریوں سے بچئے ،اس دنیا کی مثال اس سانپ کی طرح ہے جسے ہاتھ لگائیں تو نرم ونازک معلوم ہوتاہے لیکن اس کا زہر جان لیوا ہوتا ہے ،(اسی طرح یہ دنیا بھی دیکھنے میں بہت اچھی ہے لیکن حقیقت میں بہت بری ہے)اس دنیا کی جو شے اچھی لگے اسے ترک کردیجئے ، غمِ دنیا کی وجہ سے ہلکا نہ ہوں اس کے غموں کی پرواہ بھی نہ کیجئے ،دنیا سے ہر گز محبت نہ کیجئے گا کیونکہ اس کا انجام بہت برا ہے ۔
دنیا کا عاشق جب دنیا حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ بے وفادنیااسے طر ح طرح سے پریشان کرتی ہے ، اس کی خوشیوں کو غم میں بدل دیتی ہے،جو اس کی فانی اشیاء کے ملنے پر خوش ہوتا ہے وہ بہت بڑے دھوکے میں پڑا ہے اس کا فائدہ پانے والادر حقیقت شدید نقصا ن میں ہے ، دنیاوی آسائشوں تک پہنچنے کے لئے انسان تکالیف ومصائب کا سامنا کرتا ہے ، جب اسے خوشی ملتی ہے تو یہ خوشی غم و ملال میں تبدیل ہوجاتی ہے نہ تو اس کی خوشی دائمی ہے اور نہ ہی اس کی نعمتیں، ان کا ساتھ توپَل بھر کا ہے۔
اے امیر المؤمنین (علیہ رحمۃ اللہ المبین) ! اس دنیا کو تارک الدنیا کی نظرسے دیکھئے ،نہ کہ عاشقِ دنیا کی نظر سے ،جو اس دارِ ناپائیدار میں آیا وہ یہاں سے ضرور رخصت ہوگا۔نہ ہی یہاں سے جانے والا کبھی واپس آتا ہے ، اور نہ ہی اسے امید ہوتی ہے کہ کوئی اس کی واپسی کا انتظار کر رہا ہوگا ،اس کی دھوکادینے والی امیدوں میں ہرگز نہ پڑیئے، اس دنیا سے ہر دم بچئے، اس کی جو اشیاء بظاہرصاف وشفاف ہیں در حقیقت و ہ گدلی وبیکارہیں ۔
اے امیر المؤمنین(علیہ رحمۃ اللہ المبین) !یہ دنیوی زندگی بہت کم ہے ، اس کی امیدیں جھوٹی ہیں جب تک آپ دنیا میں ہیں خطرہ ہی خطرہ ہے، بہر حال اس کی نعمتیں بہت جلد ختم ہوجائیں گی اور مصبیت پیہم اترتی رہیں گی عقل مند شخص ہمیشہ اس کے دھوکوں سے محفوظ رہتا ہے ،اللہ عزوجل نے دنیا سے بچنے کی خوب تا کید فرمائی ۔
اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دنیا کی وقعت کچھ بھی نہیں اس کا وزن اس کی بارگاہ میں ایک چھوٹی سی کنکری کی طر ح بھی نہیں ، جو لوگ اللہ عزوجل کو چاہنے والے ہیں اوراسی کی محبت کے طلبگار ہیں ، وہ لوگ دنیا سے بہت نفرت کرتے ہیں ۔
اے امیر المؤمنین(علیہ رحمۃ اللہ المبین)!سرکارِنامدار،مدینے کے تاجدار،باذِن پروردگاردوعالم کے مالک ومختار،شہنشاہِ اَبرار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا او راس کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئیں تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے لینے سے انکار فرمادیا ، حالانکہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ان کی طلب سے منع نہ فرمایا گیا تھا اور اگر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمان چیزوں کو قبول بھی فرمالیتے تب بھی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے مرتبہ میں کوئی کمی واقع نہ ہوتی اور جس مقام ومرتبہ کاآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے
وعدہ کیا گیا ہے وہ ضرور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ملتا،لیکن ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم جانتے تھے کہ اللہ عزوجل کویہ دنیانا پسند ہے لہٰذا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے بھی اس کو قبول نہ فرمایا، جب اللہ عزوجل کے ہاں اس کی کوئی وقعت نہیں تو حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے بھی اس کو کوئی وقعت نہ دی ،اگر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اسے قبول فرما لیتے تو لوگوں کے لئے دلیل بن جاتی کہ شاید آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس سے محبت کرتے ہیں ،لیکن آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے قبول نہ فرمایا، کیونکہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ایک شے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ناپسند ہو اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اسے قبول فرمالیں ۔
اے امیر المؤمنین(علیہ رحمۃ اللہ المبین) !موت سے پہلے جتنی نیکیاں ہوسکتی ہیں کر لیجئے ورنہ بوقت نزع فائدہ نہ ہوگا، اللہ عزوجل ان نصیحت آموز باتو ں سے ہمیں اور آپ کو خوب نفع عطا فرمائے ،اللہ عزوجل آپ کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ والسَّلام
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)