Beautiful Islamic Story In Urdu

Table of Contents

Islamic Story In Urdu

The Beautiful Islamic Story In Urdu. This story will change your thoughts and boost your best energy in life for Muslims and all people. This Islamic story In Urdu is very Usefull for you So if you like this then send all your family friends and parents. You must read Islamic poetry.

عظیم ماں کے عظیم بیٹے

ایک مرتبہ پتھر تو ڑنے والے چند مزدور حضر ت سیدنا وھب بن منبہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ”حضور! جس قدر مصیبتوں کا ہمیں سامنا ہے ۔کیا ہم سے پہلے لوگ بھی کبھی ایسی مصیبتوں سے دو چار ہوئے؟” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان کی یہ بات سن کر ارشاد فرمایا:”اگر تم اپنی مصیبتوں اور اپنے سے سابقہ لوگوں کے مصائب کا موازنہ کرو تو تمہیں ان کے مصائب کے سامنے اپنی مصیبتیں ایسے محسوس ہوں گی جیسے آگ کے مقابلے میں دُھواں (یعنی ان کی مصیبتیں آگ اور تمہاری مصیبتیں دھوئیں کی طرح ہیں) پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :”بنی اسرائیل میں ایک عورت تھی، جس کانام سارہ تھا،اس کے سات بیٹے
تھے۔جس ملک میں وہ رہتی تھی وہاں کا بادشاہ بڑا ظالم تھا ۔ وہ لوگوں کو زبر دستی خنزیر کا گوشت کھلاتا ، جو انکار کر تا اسے قتل کروا دیتا ، چنانچہ اس عورت کوبھی اس کے بیٹوں سمیت بادشاہ کے سامنے لایا گیا ، اس ظالم بادشا ہ نے سب سے بڑے لڑکے کو بلوایا اور کہا: ”یہ خنزیر کا گو شت کھاؤ۔” اس مردِ مجاہد نے جواب دیا:”میں اللہ عزوجل کی حرام کی گئی چیز کوہرگز نہیں کھاؤں گا۔”بادشاہ نے جب یہ سنا تو حکم دیاکہ اسے سخت ترین سزادی جائے، جلاد آگے بڑھا اور اس کے ہر ہر عضو کو کا ٹ ڈالا او راسے شہید کردیا
پھر ظالم بادشاہ نے اس سے چھوٹے لڑکے کو بلایااور اس کے سامنے بھی خنزیر کا گو شت رکھتے ہوئے کہا:” اسے کھاؤ ۔” اس نے بھی جرأ تِ ایمانی کا مظا ہرہ کرتے ہوئے جواب دیا:”میں اللہ عزوجل کی حرام کی گئی اشیاء کبھی بھی نہیں کھاؤں گا ، یہ سن کر ظالم بادشاہ آگ بگولا ہوگیا اور اس نے حکم دیا کہ ایک تا نبے کی دیگ میں تیل ڈال کر اسے آگ پر رکھ دو، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔ جب تیل خوب گرم ہوگیا تو اس نوجوان مجاہدکو تیل میں ڈال دیا گیا۔ اس طر ح اس نے بھی جامِ شہادت نوش کر لیا۔” پھر بادشا ہ نے اس سے چھوٹے کو بلایا اور کہا:” یہ گو شت کھاؤ۔” اس نے بادشا ہ سے کہا:” تو ذلیل و کمزور ہے ، تو اللہ عزوجل کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں، تو مجھے اللہ عزوجل کے حکم کے خلاف کسی بات پر ہر گز آمادہ نہیں کرسکتا، جو تیرے جی میں آئے تو کر لے، لیکن میں اللہ عزوجل کی حرام کردہ ا شیاء کبھی بھی نہیں کھاؤں گا۔” بادشاہ یہ سن کر ہنسنے لگا اور لوگو ں سے کہنے لگا:”کیا تم جانتے ہو کہ اس نے مجھے گالی کیوں دی ؟” اس نے یہ سوچ کرمجھے گالی دی ہے کہ میں گالی سن کر طیش میں آجاؤں گا اور فورا ًاسے قتل کرنے کا حکم دے دو ں گا، اس طرح یہ آسانی سے موت کے گھاٹ اتر جائے گا، لیکن میں ہرگز ایسا نہیں کرو ں گا۔ پھر اس ظالم بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے سخت سے سخت سزا دی جائے۔
چنانچہ ظالم بادشاہ کے حکم پر پہلے اس نوجوان کی گردن کی کھال کاٹی گئی پھر اس کے سر اور چہرے کی کھال اُتار لی گئی۔ اور اس طر ح اسے بھی شہید کردیا گیا۔ بادشاہ نے اسی طرح مختلف ظالمانہ انداز میں باقی بھائیوں کو بھی شہید کر وادیا، آخر میں سب سے چھوٹا بھائی بچا، با دشاہ نے اس کی والدہ کو بلایا اور کہا: ”میں تیرا بھی یہی حشر کروں گا، اگر تو اپنی اور اپنے اس بیٹے کی سلامتی چاہتی ہے، تو اسے تنہا ئی میں لے جا کر سمجھا اگر یہ ایک لقمہ کھانے پر بھی راضی ہو گیا تو میں تم دونوں کوچھوڑ دو ں گا۔پھر تم من پسند زندگی گزارنا۔” اس عورت نے کہا:” ٹھیک ہے ،میں اسے سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں۔” پھروہ اپنے بیٹے کو تنہائی میں لے گئی اور کہا:”اے میرے لختِ جگر !کیا تو جانتا ہے کہ تیرے بھائیوں میں سے ہر ایک پر میرا ایک حق ہے اور تجھ پر میرے دو حق ہیں، وہ اس طرح کہ میں نے تیرے بھائیوں کو دو دو سال دودھ پلایا تھا۔ تیری پیدا ئش سے چند دن قبل تیرے والد کا انتقال ہوگیا پھر جب تیری ولادت ہوئی تو توُ بہت زیادہ کمزور تھا۔مجھے تجھ پر بڑا ترس آیا اور میں نے تیری کمزوری اور تجھ سے اپنی شدید محبت کی
وجہ سے تجھے چار سال دودھ پلایا ۔میں تجھے اللہ عزوجل اوراس احسان کا واسطہ دے کر کہتی ہوں جو میں نے تجھ پر کیا کہ تو ہر گز اس چیز کو نہ کھا ناجسے اللہ ربُّ العزَّت نے حرام کیا ہے اور برو زِ قیامت اپنے بھائیوں سے اس حال میں نہ ملنا کہ تو ان میں سے نہ ہو ، جب سعادت مند بیٹے نے ماں کی یہ باتیں سنیں تو کہا :”میں توڈر رہاتھا کہ شاید آپ مجھے خنزیر کا گو شت کھانے پر ابھاریں گیں لیکن اللہ عزوجل کا شکر ہے کہ اس نے مجھے تم جیسی عظیم ماں عطا فرمائی۔ ”
پھر وہ عورت اپنے بیٹے کو لے کر بادشاہ کے پاس آئی اور کہا:” یہ لو، اب یہ وہی کریگا جو میں نے اس سے کہا ہے۔” بادشاہ بڑا خوش ہو ا اور اس کی طر ف خنزیر کا گوشت بڑھاتے ہوئے کہا:”یہ لو، اس میں سے کچھ کھالو۔”یہ سن کر بہادر نوجوان نے جواب دیا:”خدا عزوجل کی قسم! میں ہر گز اس چیز کو نہیں کھاؤں گا جسے اللہ عزوجل نے حرام کیا ہے۔” بادشاہ کویہ سن کر بہت غصہ آیا۔ چنانچہ اس ظالم نے اس مرد مجاہد کو بھی شہید کروادیا۔ اسی طرح یہ بھی اپنے بھائیوں سے جا ملا۔ پھر بادشاہ نے اس عظیم عورت سے کہا:”میراخیال ہے کہ مجھے تیرے ساتھ بھی وہی سلوک کرنا پڑے گا جو تیرے بیٹوں کے ساتھ کیا ہے۔ اے بڑھیا! تیری ہلاکت ہو،تو صرف ایک لقمہ ہی کھالے تومیں تجھے منہ مانگا انعام دو ں گا ، اور جوتو کہے گی میں وہی کرو ں گا، تو صرف ایک لقمہ کھالے، پھر عیش وعشرت سے زندگی گزارنا۔”یہ سن کر اس عظیم ماں نے جواب دیا: ”اے ظالم !تو نے میرے بچوں کو میرے سامنے مار ڈالا،اور اب تو یہ چاہتا ہے کہ میں تیرے کہنے پر اللہ عزوجل کی نافرمانی بھی کرو ں ،اپنے بچو ں کی موت کے بعد مجھے زندگی سے کوئی سرو کار نہیں۔ خدا عزوجل کی قسم! تو جو کچھ کر سکتا ہے کرلے میں کبھی اللہ عزوجل کی حرام کردہ شئے نہیں کھاؤں گی۔ ”یہ سن کر اس سفاک وظالم بادشاہ نے اسے بھی شہیدکر وا دیا۔ اس طرح اس عظیم ماں کی روح بھی اپنے عظیم فرزندوں سے جا ملی۔ (سبحان اللہ عزوجل !ان سب نے ایک ایک کر کے اپنی جانیں تو دے دیں لیکن اللہ عزوجل کے حکم کی خلاف ورزی نہ کی )
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)

Islamic Story In Urdu

سمندرمیں راستے

حضرت سیدنا قدامہ بن حماطہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :”میں نے حضرت سیدنا سہم بن منجاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا کہ” ایک مرتبہ ہم حضرت سیدنا علاء بن حضر می رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جنگ کے لئے ”دارین” کی طر ف روانہ ہوئے ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مستجاب الدعوات تھے، آپ رضی اللہ تعالیٰ علیہ نے راستے میں تین دعائیں کیں اور تینوں مقبول ہوئیں۔راستے میں ایک جگہ پانی بالکل ختم ہوگیا،ہم نے ایک جگہ قافلہ روکا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کے لئے پانی منگوایا اور وضو کرنے کے بعد دورکعتیں ادا فرمائیں، پھر دعا کے لئے ہاتھ اٹھادیئے اور بارگاہ ِخدا وندی عزوجل میں اس طر ح عرض گزار ہوئے :”اے ہمارے پروردگار عزوجل !ہم تیرے بندے ہیں ،تیری راہ کے مسافر ہیں،ہم تیرے دشمنوں سے قتال کریں گے ، اے ہمارے رحیم وکریم پروردگار عزوجل !ہمیں بارانِ رحمت سے سیراب فرما دے تا کہ ہم وضو کریں اور اپنی پیاس بجھائیں ۔”
اس کے بعد قافلے نے کوچ کیا۔ ابھی ہم نے تھوڑی سی مسافت ہی طے کی تھی کہ گھنگور گھٹائیں چھاگئیں اور یکایک بارانِ رحمت ہونے لگی ، سب نے اپنے اپنے بر تن بھرلئے اور پھر ہم وہاں سے آگے چل دیئے ۔
حضرت سیدنا سہم بن منجاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:” تھوڑی دور چلنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ میں اپنا برتن تو اسی جگہ بھول آیاہوں جہاں بارش ہوئی تھی۔ چنانچہ میں اپنے رفقاء کو بتا کراس طرف چل دیاجہاں بارش ہوئی تھی۔ جب میں وہاں پہنچاتویہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرانگی ہوئی کہ ابھی کچھ دیر پہلے جہاں شدید بارش کا سماں تھا اب وہاں بارش کے آثار تک نہ تھے ۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہاں کی زمین پر بر سوں سے ایک قطرہ بھی نہیں برسا۔ بہر حال میں اپنے بر تن کولے کر واپس قافلے میں شامل ہوگیا ۔
جب ہم ”دارین” پہنچے تو ہمارے اور دشمنوں کے درمیان ٹھاٹھیں مارتا سمند ر تھا۔ ہمارے پاس ایسا سازو سامان نہ تھا کہ ہم سمندر پار کر سکیں۔ ہم بہت پریشان ہوئے اور معاملہ حضرت سیدنا علاء بن حضر می رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور ان کلمات کے ساتھ دعا کرنے لگے :”یَاعَلِیُّ،یَاعَلِیْمُ،یَاحَلِیْمُ،یَاعَظِیْمُ ”اے ہمارے پروردگار عزوجل! ہم تیرے بندے ہیں اور تیری راہ کے مسافر ہیں ،ہم تیرے دشمنوں سے قتال کریں گے، اے ہمارے پروردگار عزوجل! ہمارے لئے ان کی طر ف کوئی راستہ بنادے ۔”
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا قبول ہوئی اور ہمارے لئے سمندر میں راستے بن گئے ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیں لے کر سمندر میں اُتر گئے اور ہم نے اس طرح سمندر پار کیا کہ ہمارے کپڑ ے بھی گیلے نہ ہوئے۔جنگ کے بعد جب ہماری واپسی ہوئی تو راستے میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیٹ میں درد ہونے لگا اور اسی درد کی حالت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ہوگیا۔ ہم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو
غسل دینا چاہالیکن پانی بالکل ختم ہوگیا تھا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بغیر نہلائے کفن دیا گیا، پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دفن کر دیا گیا ۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تدفین کے بعد ہم وہاں سے رخصت ہوگئے۔ ایک جگہ ہمارے قافلے کو پانی میسر آیا تو ہم نے باہم مشورہ کیا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسل دے کر دوبارہ دفن کیا جائے ۔چنا نچہ ہم اس جگہ پہنچے جہاںآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دفن کیا تھا۔ لیکن وہاں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاش موجود نہ تھی۔ خوب تلاش کیا لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لاشہ مبارک نہ مل سکا پھر ہمیں ایک شخص نے بتا یا کہ میں نے حضر ت سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وصال سے پہلے یہ دعا کرتے سنا تھا :”یَاعَلِیُّ، یَاعَلِیْمُ، یَاحَلِیْمُ،یَاعَظِیْمُ ”اے ہمارے پروردگار عزوجل !میری موت کو ان لوگو ں پر پوشیدہ کر دینا اور میرے ستر کو کسی پر ظاہر نہ فرمانا۔ جب ہم نے یہ سنا تو ہم واپس لوٹ آئے اور ہم سمجھ گئے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ دعا بھی قبول ہوچکی ہے، اسی لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جسم اطہرنہیں مل رہا ۔
حضرت سیدنا عمر بن ثابت بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:” ایک مرتبہ بصرہ کے رہنے والے ایک شخص کے کان میں ایک کنکری چلی گئی، طبیبوں نے بہت علاج کیا مگر وہ نہ نکلی بلکہ مزید اندر چلی گئی اور دماغ تک جا پہنچی، اس شخص کا تکلیف کے مارے برا حال تھا، راتوں کی نینداور دن کا آرام وسکون سب برباد ہوگیا ، پھر بصرہ میں حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے رفقاء میں سے ایک شخص آیا ۔یہ غم کا مارا اس کے پاس پہنچا اور اپنا درد بیان کیا ۔
حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے رفیق نے کہا :” تیرابھلا ہو ، اگر تو چاہتا ہے کہ تیری تکلیف دور ہو جائے تو ان کلمات کے ساتھ اللہ عزوجل سے دعا کر جن کے ذریعے حضرت سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دعا کرتے تھے ، انہوں نے صحراؤں اور سمندروں میں ان کلمات سے دعا کی تو ان کی دعا مقبول ہوئی۔پس تو بھی انہیں کلمات کے ذریعے دعا کر۔” وہ شخص عرض گزار ہوا :”وہ کلمات کون سے ہیں؟” اس نے بتایا:” وہ کلمات یہ ہیں:”یَاعَلِیُّ،یَاعَلِیْمُ،یَاحَلِیْمُ،یَاعَظِیْمُ ”جیسے ہی اس شخص نے ان کلمات کے ساتھ دعاکی فوراً اس کے کان سے وہ کنکری نکلی اور دیوار سے جا لگی اور اس شخص کو سکون نصیب ہوگیا۔
علامہ ابن حجر عسقلانی قدِّس سرہ، الرَّبانی فرماتے ہیں:” حضرت سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اصل نام ”عبداللہ بن عماد بن اکبر بن ربیعہ بن مالک بن عوف حضرمی” تھا ۔
آپ نبی ئمُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صحابی تھے ، حضورنبی ئ رحمت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو” بحرین ”کا امیر بنا کر بھیجا ۔حضرت سیدنا ابو بکر صدیقرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحرین کے امیر رہے اور حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحرین کاامیر بر قرار رکھا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)

Leave a Comment