Islamic Stories in Urdu Copy Paste
In this blog post, I will share Islamic Stories in Urdu Copy-Paste. These stories are very interesting and knowledgeable, and they will change your thoughts. I also recommended another amazing story.
حاسد کاانجام
خلیفہ ٔ بغداد ’’ ابوجعفر منصور عباسی‘‘ حضرت امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کا انتہائی معتقد تھا اورآپ کو سلطنت بھر کے علماء پرفضیلت دیتا تھا امام ممدوح کااعزاز دیکھ کر محمدبن اسحاق (صاحب المغازی) کوحسد ہونے لگا چنانچہ ایک دن انھوں نے دربار شاہی
میں حضرت امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ سے سوا ل کیا کہ اگر کسی نے اپنی بیوی سے یہ کہہ دیا کہ ’’تجھ پر تین طلاق‘‘ پھر تھوڑی دیر ٹھہر کر کہاکہ ان شاء اللہ توکیا اس عورت پر طلاق پڑ جائے گی …؟
حضرت امام علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ ہاں !ضرور طلاق پڑ جائے گی اس لئے کہ اس نے ان شاء اللہ کواپنے طلاق والے جملے سے الگ کردیا اس لئے یہ استثناء مفید نہیں ہوگا یہ سن کر محمد بن اسحاق نے کہا کہ اے امیرالمومنین ! ذرامام ابوحنیفہ کی جرات دیکھئے کہ آپ کے دربار میں آپ کے سامنے آپ کے جدامجد حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے مسلک کی مخالفت کررہے ہیں آپ کے جد امجد کایہ قول ہے کہ ان شاء اللہ اگرکلام سے الگ کرکے کہاجائے جب بھی یہ استثناء مفید ہوتاہے یہ سنتے ہی ابوجعفر منصور مارے غصہ کے آگ بگولہ ہوگیا اورکہا کہ کیوں جی …؟ ابوحنیفہ ! تمھاری یہ جرات ہے کہ تم میرے دربار میں میرے جد کریم کے قول کی مخالفت کرتے ہو …؟ حضرت امام نے بڑے سکون واطمینان کے ساتھ فرمایا کہ امیرالمومنین ! حضرت عبداللہ بن عباس کے قول کامطلب کچھ اورہے اورمحمد بن اسحاق کامنشاء کچھ اور ہے محمد بن اسحاق یہ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی بیعت کرکے باہر نکلیں اوران شاء اللہ کہہ دیں توآپ کی بیعت ختم ہوجائے یہ سنتے ہی ابوجعفر منصور مارے غصے کے سرخ ہوگیا اورجلادوں کوحکم دے دیا کہ محمد بن اسحاق کے گلے میں ان کی چادر کاپھند ا ڈال کر گھسیٹتے ہوئے لے جائو اوران کو قید کردو (روح البیان :ج۵:۲۳۵ص)
{نتیجہ} حسد کتنی بری بلا ہے کہ محمد بن اسحاق جیسی شخصیت جو فن مغازی کے امام کہلاتے ہیں اسی حسد کی نحوست سے دربار شاہی کی اعزازی کرسی سے جیل خانہ کی ذلت میں گرفتار ہوئے اگرامام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کی ذہانت اوردانائی بروقت ان کا دفاع نہ کرتی تومحمد بن اسحاق نے تو امام ممدوح کے قتل ہی کاسامان کردیا تھا مگر یہ مثل کتنی سچی ہے کہ ’’چاہ کن راچاہ در پیش‘‘ یعنی جو دوسروں کے گرنے کے لئے کنواں کھودتا ہے وہ خود ہی اس کنویں میں گر پڑتا ہے اسی لئے قرآن مجید میں من شر حاسد اذاحسد( ترجمہ:حسدکرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے ۔سورئہ الفلق) فرماکر حاسد سے خدا کی پنا ہ طلب کرنے کاحکم دیاگیا ہے حضرت شیخ
سعدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کیاخوب ارشاد فرمایا ہے
بمیر تابر ہی اے حسود کیں رنجے است
کہ از مشقت او جز بمرگ نتواں رستیعنی اے حاسد !تومرجا اس لئے کہ حسد ایک ایسارنج ہے کہ بغیر مرے ہوئے تواس سے چھٹکار ا نہیں حاصل کرسکتا
Islamic Stories in Urdu text
ایک عمل چارحاجتیں
منقول ہے کہ ایک بارحضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں چار شخص حاضر ہوئے ایک نے قحط کی شکایت کی دوسرے نے کہا میں محتاجی سے تنگ ہوں تیسر ے نے کہا میرے کوئی اولاد نہیں ہے چوتھے نے عرض کیا کہ میری زمین کھیتی باغ نہیں اگاتی ۔چاروں کی فریاد سن کر امام ممدوح نے فرمایا کہ تم لوگ استغفارپڑھو۔ربیع بن صبیح حاضرخدمت تھے انھوں نے عرض کیا کہ یابن رسول اللہ(ﷺ) !لوگ مختلف قسم کی حاجتیں لے کر آئے ہیں اورحضرت نے سب کو ایک ہی دعا تعلیم فرمائی یہ کیامعاملہ ہے؟ حضرت امام نے فرمایا کہ قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کاارشاد ہے کہ استغفرو اربکم انہ کان غفارا یرسل السماء علیکم مدرارا ویمددکم باموال وبنین ویجعل لکم جنت ویجعل لکم انھر(القران)یعنی’’تم لوگ اپنے رب سے استغفار کرو بے شک وہ بہت معاف فرمانے والا ہے وہ تم پر زور دار بارش بھیجے گا اورمالوں اوربیٹوں سے تمھاری مدد فرمائے گا اورتمھارے لئے باغ اورنہریں تیار فرمادے گا ‘‘۔
ربیع بن صبیح !دیکھ لو اس آیت میں استغفار کے چار فائدے بیان کئے گئے ہیں ۔ بارش
ہونا ،مال ملنا،اولاد ہونا،باغ اگنا یہی چاروں کی حاجتیں تھیں ۔اس لئے میں نے ان چاروں کواستغفار کاایک ہی عمل تعلیم کردیا (تفسیر صاوی :ج۱:۲۵۰ص)
{نتیجہ} مذکور ہ بالا دونوں حکایات سے حضرت امام حسن مجبتی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایمان افروز دانائی ‘بے مثال قرآن فہمی اورمجتہدانہ شان کا اعلان ہوتا ہے کیوں نہ ہو؟ کہ … جس گھر میں قرآن نازل ہوا اورجوصاحب قرآن کی آغوش میں پلابڑھا ہو اس سے زیادہ قرآن کے رموز واسرار کو کون جان سکتا ہے مثل مشہو ر ہے کہ صاحب البیت ادری بما فی البیت یعنی’’گھروالا ہی سب سے زیادہ اس بات کوجانتاہے کہ گھر میں کیا ہے سبحان اللہ !
ختم نبوت شاہ زمن پر ختم خلافت ذات حسن پر
دونوں مصحف حق کے خاتم صلی اللہ علیہ وسلم
Islamic Stories in Urdu
گئے تو کنگال ‘آئے تو مالامال
حضرت نصربن شمیل (متوفی ۲۰۳ھ) حدیث وفقہ ،نحو وشعر وغیرہ وعلوم فنون کے مانے ہوئے استاد وقت تھے لیکن بہت ہی سادہ مزاج تھے ایک مرتبہ مدت کا بوسیدہ ،میلاکچیلا لباس پہنے ہوئے بے دھڑک خلیفۂ بغداد مامو ن الرشید کے دربار شاہی میں داخل ہوگئے مامون الرشید نے پہلے تو ان کے لباس پراظہار حیرت کرتے ہوئے انھیں ٹوکا لیکن پھرایک استاد حدیث کی صحبت کوغنیمت جان کر علم حدیث کاتذکرہ شروع کردیا اوراپنی سند سے ایک حدیث سنائی مگر ’’سداد‘‘ کے لفظ کوجواس حدیث میں تھا ’’سداد‘‘ زبر کے ساتھ پڑھ دیا۔ حضرت نضربن شمیل نے مامون الرشید کواس کی غلطی پر متنبہ کرنے کے لئے اپنی سند سے اس حدیث کو پڑ ھا اور’’سداد‘‘ کوزیر کے ساتھ پڑھا مامون الرشید دفعتاً چونکا اورسنبھل کربیٹھ گیا اورحضرت نضر بن شمیل سے سوال کیا کہ کیا’’ سداد‘‘ زبر کے ساتھ غلط ہے؟ حضرت نضر بن شمیل نے فرمایا کہ جی ہاں آپ کے استاد ’’ہیشم‘‘ نے آپ کوغلط بتایا مامون الرشید نے کہا کیا ’’سداد اورسداد ‘‘ان دونوں لفظوں کے معنی میں کچھ فرق ہے؟ حضرت نضر نے فرمایا کہ جی ہاں ’’ سداد‘ زبر کے ساتھ سیدھا راستہ چلنے کے معنی میں ہے اور’’سداد‘‘زیر کے ساتھ رکاوٹ ڈالنے والی چیز کوکہتے ہیں ۔مامون الرشید نے کہا کہ اس کی کوئی سند بھی آپ پیش کرسکتے ہیں ؟تو حضرت نضر نے فوراً عربی کاشعر پڑھ دیا
اضاعونی وای فتی اضاعوا
لیوم کریھہ و سداد ثغر
اور فرمایا کہ امیرالمومنین !آپ ملاحظہ فرمائیے کہ اس شعر میں سداد کالفظ آیا ہے۔ جوسرحد پردشمن کوروکنے والی چیز کے معنی میں ہے۔ مامون الرشید اپنی غلطی پر شرمندہ ہوگیا اورکہا کہ خدا اس کابرا کرے جس کو فن ادب نہیں آتا ۔پھر مامون نے حضرت نضر سے مختلف مضامین کے اشعارسنے اوررخصت ہونے کے وقت اپنے وزیراعظم فضل بن سہل کو رقعہ لکھ دیاکہ پچاس ہزار درہم حضرت نضر کوعطاکئے جائیں ۔حضرت نصریہ فرمان شاہی لے کر فضل کے پاس
تشریف لے گئے اس نے رقعہ دیکھ کر پوچھا کہ آپ نے امیرا لمومنین کی غلطی ثابت ۔کی حضرت نضرنے فرمایا کہ غلطی تو ہیشم نے کی۔ امیرالمومنین پرکیاالزام ہے ۔فضل نے یہ سن کر تیس ہزار درہم اپنی طرف سے مزید نذر کئے۔ اس طرح صرف ایک غلطی بتانے پر حضرت نضر بن شمیل کواسی ہزار درہم ملے(تاریخ الخلفاء سیوطی المامون:ج۲:۱۴۲ص)
{نتیجہ} علماء سلف کی یہ شان تھی کہ غلطیوں پربادشاہوں کوٹوک دینے میں بھی ان کوخوف وہراس دامن گیر نہیں ہوتاتھا اوراسلامی حکومت کے سلاطین وامراء کایہ طرز عمل بھی تاریخ میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ وہ غلطیوں پرمتنبہ کرنے سے برہم نہیں ہوتے تھے بلکہ نہایت جذبہ تشکر کے ساتھ اپنی غلطیوں کوتسلیم کرکے اپنی اصلاح کرلیتے تھے اورعلمائے دین کاان کے دلوں میں کتناعظیم احترام تھا ۔حضرت نضربن شمیل کے ساتھ مامون اورفضل کایہ طرز عمل اس کی ایک تابناک اورناقابل فراموش مثال ہے یہ تاریخی واقعہ اس دور کے متکبر مال داروں کیلئے تازیانہ عبرت ہے۔ جوعلمائے کرام کو حقارت کی نظروں سے دیکھنا اپنے لئے سرمایۂ افتخار سمجھتے ہیں خداوند کریم ان لوگوں کوہدایت عطافرمائے کہ علمائے حق کی قدرومنزلت درحقیقت علم دین کی عزت ہے اورعلم دین کی تعظیم درحقیقت اللہ عزوجل اوراس کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعظیم ہے مگرافسوس کہ دولت کے نشہ اورسیاست کے چکر نے مسلمانوں کی دنیائے ایمان پر ایسی بمباری کردی ہے کہ ایمانی محل کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اوراب تو حال یہ ہے کہ
نہ احساس شریعت ہے ‘ نہ اب تبلیغ سنت ہے
جدھردیکھوزبانوں پرسیاست ہی سیاست ہے
فقط اتنا سیاسی لیڈروں سے پوچھتا ہوں میں
حکومت سے ہے مذہب یاکہ مذہب سے حکومت
best islamic stories in urdu
دو بادشاہ ،ساحل سمندر پر
حضرت سیدنا عبدالرحمن بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں :” پہلی اُمتو ں میں ایک بادشاہ تھا ۔ خوب شان وشوکت سے اس کے دن رات گزر رہے تھے۔ ایک دن اس کی قسمت کا ستارہ چمکا اور وہ اپنی آخرت کے بارے میں غور وفکر کرنے لگا، اور سوچنے لگا کہ میں جن دنیاوی آسائشو ں میں گم ہو کر اپنے رب عزوجل کو بھول چکاہوں عنقریب یہ ساری نعمتیں مجھ سے منقطع ہوجائیں گی، میری حکومت وباد شاہت نے تو مجھے اپنے پاک پروردگار عزوجل کی عبادت سے غافل کر رکھا ہے ۔
چنانچہ وہ رات کی تا ریکی میں اپنے محل سے نکلا،اور ساری رات تیزی سے سفر کرتا رہا۔ جب صبح ہوئی تو وہ اپنے ملک کی سر حد عبور کر چکا تھا۔ اس نے ساحلِ سمند ر کا رخ کیا اور وہیں رہنے لگا۔وہاں وہ اینٹیں بنابنا کر بیچتا،جو رقم حاصل ہوتی اس میں سے کچھ اپنے خر چ کے لئے رکھ لیتااور باقی سب صدقہ کر دیتا۔ اسی حالت میں اسے کافی عرصہ گزر گیا۔ بالآخر اس کی خبراس ملک کے بادشاہ کو ہوئی ،تو اس بادشاہ نے پیغام بھیجا:” مجھ سے آکرملو۔”لیکن اس نے انکار کر دیا، اور بادشاہ کے پاس نہ گیا ۔ بادشاہ نے پھر اپنا قاصد بھیجااور اسے اپنے پاس بلوایا اس نے پھر انکار کر دیا، اور کہا:” بادشاہ کو مجھ سے کیا غرض ،اور مجھے بادشاہ سے کیا کام کہ میں اس کے پاس جاؤں ۔”
جب بادشاہ کو یہ بتایا گیا تو وہ خود گھوڑے پر سوار ہو کر ساحلِ سمندر پر آیا۔ جب اس نیک شخص نے دیکھا کہ بادشاہ میری طرف آرہا ہے تواس نے ایک طر ف دوڑ لگا دی۔ بادشاہ نے جب اسے بھاگتے دیکھا تو وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگا لیکن وہ بادشاہ کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔ جب بادشاہ اسے نہ ڈھونڈ سکا تو بلند آواز سے کہا:”اے اللہ عزوجل کے بندے !میں تجھ سے کچھ بھی نہیں کہوں گا، تو مجھ سے خوف زدہ نہ ہو (میں تجھ سے ملا قات کرنا چاہتا ہوں )۔”
جب اس نیک شخص نے یہ سنا تو وہ بادشاہ کے سامنے آگیا ۔ بادشاہ نے اس سے کہا:” اللہ عزوجل تجھے بر کتیں عطا فرمائے، تو کون ہے ؟ اور کہاں سے آیا ہے ؟” اس نے اپنا نام بتا یا اور کہا :” میں فلاں ملک کا بادشاہ تھا ، جب میں نے غور وفکر کیا تومجھے معلوم ہوا کہ میں جس دنیا کی دولت میں مست ہوں، یہ تو عنقریب فنا ہوجائے گی،اور اس دولت وحکومت نے تو مجھے غفلت کی نیند سلارکھا ہے۔ ؎وہ ہے عیش وعشرت کا کوئی محل بھی جہاں تاک میں ہر گھڑی ہو اجل بھی بس اب اپنے اس جہل سے تو نکل بھی یہ جینے کا انداز اپنا بدل بھی جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے چنانچہ میں نے اپنے تمام سابقہ گناہوں سے توبہ کی اور تمام دنیاوی آسائشوں کو چھوڑکر دنیا سے الگ تھلگ اپنے رب عزوجل کی عبادت شروع کردی، اللہ عزوجل میری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول ومنظور فرمائے۔ جب بادشاہ نے یہ سنا،تو کہنے لگا: ”میرے بھائی !جو کچھ تو نے کیا میں تو تجھ سے زیادہ اس کا حق دار ہوں۔یہ کہتے ہوئے وہ گھوڑے سے اتر ا ،اور اسے وہیں چھوڑ کر اس نیک شخص کے ساتھ چل دیا۔
چنانچہ وہ دونوں بادشاہ ایک ساتھ رہنے لگے،اور اب وہ ہر وقت اپنے رب عزوجل کی عبادت میں مصروف رہتے ، اور انہوں نے دعا کی:” اے ہمارے پرور دگار عزوجل! ہمیں ایک ساتھ موت دینا ۔” چنا نچہ ان دونوں کا ایک ہی دن انتقال ہوا اور ان کی قبر یں بھی ایک ساتھ ہی بنائی گئیں۔ یہ حکایت نقل کرنے کے بعد حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :”اگر میں مصر میں ہوتا تو ان کی قبروں کی جونشانیاں ہمیں اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے بتائی ہیں مَیں ان کی وجہ سے انہیں ضرور پہچان لیتا اور تمہیں وہ قبریں ضرور دکھاتا۔”
(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند عبد اﷲ بن مسعود، الحدیث: ۴۳۱۲، ج۲، ص۶۶ا۔۱۶۷)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)