best ishq poetry in urdu 2 lines

ishq poetry in urdu 2 lines

Enter the enchanting world of ishq poetry in urdu 2 lines, where words speak directly to the heart. These poems celebrate the beauty, passion, and mystery of love, exploring the deepest emotions and desires that make us human. Join us on a journey of love, longing, and devotion, where words become the whispers of the soul. Also, read another deep poetry.

 ishq poetry in urdu 2 lines

عشق کچے گھڑے پہ ڈوب گیا
لمحہ جب انتظار کا آیا

 ishq poetry in urdu 2 lines

ہم لگا دیں گے عشق کی بازی
نہ ملے جیت اپنی ہار سہی

عشق میں آخر خار ہوئے
لاکھ چلے دانائی سے

ishq poetry in urdu 2 lines

بہت سے عشق کی راہوں میں پل صراط آئے
تمہارا نام لیا اور گزر گئے ہم بھی

کیا سنے کوئی داستان وفا
فرق اب عشق اور ہوس میں نہیں

جس قدر گھائل کیا خود سو گنا گھائل ہوا
عشق ہی تو تھا مرا ہتھیار پہلا آخری

نصاب عشق ابھی تک ہے ماورائے خرد
کہ تیس سال ہوئے ہیں پڑھائی کرتے ہوئے

دل تو حیران ہے کیوں ششدر و مضطر میں ہوں
عشق کہتا ہے کہ اس پردہ کے اندر میں ہوں

دل وحشی تو نہ کر عشق پریشاں ہوگا
مثل آئینہ کے پھر ششدر و حیراں ہوگا

آنکھ پر نم مگر مسکراہٹ مری
کہہ رہی تھی کہانی مرے عشق کی

عشق کے سیل کو روکنے کے لیے
غم کی دیوار رستے میں رکھ دی گئی

حسن بھی ہے مصلحت بیں عشق بھی دنیا شناس
آپ کی شہرت گئی یاروں کی رسوائی گئی

غیرت عشق کا یہ ایک سہارا نہ گیا
لاکھ مجبور ہوئے ان کو پکارا نہ گیا

معرکہ عشق کا سر دے کے بھی سر ہو نہ سکا
کون راہی تھا جو اس راہ میں مارا نہ گیا

تمہارا عشق جسے خاک میں ملاتا ہے
اسی کی خاک سے پھر پھول بھی کھلاتا ہے

کہاں بجھائے سے بجھتے ہیں عشق کے شعلے
چراغ یوں تو جو جلتا ہے بجھ بھی جاتا ہے

یہ عشق کے شعلے بھی عجب چیزیں ہیں یعنی
جو آگ لگائے وہی خود آگ بجھائے

غرور عشق غرور وفا غرور نظر
سرورؔ تیرے گناہوں کا کچھ شمار بھی ہے

بندشیں عشق میں دنیا سے نرالی دیکھیں
دل تڑپ جائے مگر لب نہ ہلائے کوئی

ishq shayari urdu in hindi

سسکیوں ہچکیوں آہوں کی فراوانی میں
الجھنیں کتنی ہیں اس عشق کی آسانی میں

حسن ہے فانی عشق مرا
ان مٹ ہے لا فانی ہے

عشق کہتے ہیں سب جسے ہم سے
وہ گناہ حسیں ہوا ہی نہیں

دل وہ عجیب شہر کہ جس کی فصیل پر
نازل ہوا ہے عشق بلائیں لیے ہوئے

میں اور کوئے عشق مرے اور یہ نصیب
ذوق فنا خضر کی طرح رہ نما ہوا

مرتب کر گیا اک عشق کا قانون دنیا میں
وہ دیوانے ہیں جو مجنوں کو دیوانہ بتاتے ہیں

ishq poetry in urdu text

کھلا ہے آج بھی اس خانقاہ عشق کا در
ملنگ آج بھی پیہم تماشہ کرتے ہیں

عشق جیسے کہیں چھونے سے بھی لگ جاتا ہو
کون بیٹھے گا بھلا آپ کے بیمار کے ساتھ

نیاز عشق نے آخر اٹھا دیا آتشؔ
وہ ایک پردہ سا حائل جو درمیان میں تھا

بے وفا با وفا نہیں ہوگا
عشق کی کیمیا نہیں ہوں میں

عشق ہوتا ہے کیا پتا ہوتا
گر پرندوں سے واسطہ ہوتا

بے وفائی کا سرخ رنگ بھی ہے
عشق میں ورنہ کیا مزہ ہوتا

حصے میں آتا صرف امیروں کے
عشق پیسوں میں گر بکا ہوتا

عشق سے دل کو اوبا دیکھا
جسم کا جب سے سودا دیکھا

اک عشق ہے کہ جس کی گلی جا رہا ہوں میں
اور دل کی دھڑکنوں سے بھی گھبرا رہا ہوں میں

مجھے اب عشق مٹی سے نہیں ہے
میں عاشق مال و زر کا ہو گیا ہوں

بیٹھتی ہے کون سی کروٹ یہ بازی عشق کی
گردشوں کے ہاتھ میں ہے فیصلہ تقدیر کا

ریختہ سے عشق عازمؔ؟ وہ بھی ایسے دور میں
دیکھنا کیا حال ہوتا ہے تری تحریر کا

صبر کی تکرار تھی جوش و جنون عشق سے
زندگی بھر دل مجھے میں دل کو سمجھاتا رہا

غیر کے ساتھ کبھی ذکر ہمارا نہ کریں
ہم کو بد نام کریں عشق کو رسوا نہ کریں

کسی سے عشق کرنا اور اس کو با خبر کرنا
ہے اپنے مطلب دشوار کو دشوار تر کرنا

مزے سے عشق کے غافل رہے دونوں کے دونوں ہی
وہ مشغول جفا ہو کر میں مصروف فغاں ہو کر

کچھ مخمصات دہر تھے دیوانگی سے کم
اچھا ہوا کہ عشق میں دیوانہ ہو گیا

دل چاہئے گداز نہیں زور و زر سے کام
اپنی مثال عشق میں پروانہ ہو گیا

عشق میں بھی مزہ ہے جینے کا
غم اٹھانے کا گر سلیقہ ہے

نہ وہ حسن ہے نہ حجاب ہے نہ وہ عشق میں تب و تاب ہے
نہ وہ آبروئے وفا رہی ترے گاؤں میں مرے شہر میں

منبر عشق سے تقریر کی خواہش ہے ہمیں
دل کو اس واسطے مولانا بنا رکھا ہے

مجھ گمنام سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوں
عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے

یہ ترے چاہنے والے بھی عجب ہیں جاناں
عشق کرتے ہیں کہ ہوتا نہیں دیکھا جاتا

کب تمہیں عشق پہ مجبور کیا ہے ہم نے
ہم تو بس یاد دلاتے ہیں چلے جاتے ہیں

رفتگاں تم نے عبث ڈھونگ رچایا ورنہ
عشق کو دخل نہیں موت کی ارزانی میں

شروع عشق میں ایسی اداسیاں تابشؔ
ہر ایک شام یہ لگتا ہے شام آخری ہے

کوئی ٹکرا کے سبک سر بھی تو ہو سکتا ہے
عشق کا کھیل برابر بھی تو ہو سکتا ہے

تیرے لیے سب چھوڑ کے تیرا نہ رہا میں
دنیا بھی گئی عشق میں تجھ سے بھی گیا میں

اب طیش میں آتے ہی پکڑ لیتا ہوں پاؤں
اس عشق سے پہلے کبھی ایسا تو نہ تھا میں

یہ تو اب عشق میں جی لگنے لگا ہے کچھ کچھ
اس طرف پہلے پہل گھیر کے لایا گیا میں

یہ بہت دیر میں ہوا معلوم
عشق کیا ہے مغالطہ کیا ہے

عشق کر کے بھی کھل نہیں پایا
تیرا میرا معاملہ کیا ہے

مشکل نہیں ہے عشق کا میدان مارنا
لیکن ہماری طرح نہتا کوئی تو ہو

اب ادھورے عشق کی تکمیل ہی ممکن نہیں
کیا کریں پیغام کی ترسیل ہی ممکن نہیں

تہمت رسوائی کیسے عشق پر رکھتا کوئی
ایسے کاموں میں تو ایسی ڈھیل ہی ممکن نہیں

اور بھی کچھ صورتیں بن جائیں گی رسوائی کی
عشق میں تابشؔ فقط تذلیل ہی ممکن نہیں

یہ جو چہرہ ہیں یہاں چاند سے چہرہ تابشؔ
یہ مرا عشق مکمل نہیں ہونے دیں گے

لہو تو عشق کے آغاز ہی میں جلنے لگتا ہے
مگر ہونٹوں تک آتا ہے دھواں آہستہ آہستہ

ٹوٹ جانے میں کھلونوں کی طرح ہوتا ہے
آدمی عشق میں بچوں کی طرح ہوتا ہے

ہم جسے عشق میں دیتے ہیں خدا کا منصب
پہلے پہلے ہمیں لوگوں کی طرح ہوتا ہے

اس سے کہنا کہ وہ ساون میں نہ گھر سے نکلے
حافظہ عشق کا سانپوں کی طرح ہوتا ہے

Leave a Comment