heart touching urdu Ghazals
heart touching urdu ghazals are the most beautiful words for love emotions. They talk about love, longing, and life beautifully. These poems touch your heart. They can make you feel happy or sad, just with a few lines.
In this blog, we’ll learn about Urdu Ghazals: where they come from, what they talk about, and why people love them. From old poets like Mirza Ghalib to new ones, Urdu Ghazals have always been special.
We’ll also see what makes these poems so powerful. They use special words and pictures to make you feel something deep inside. Join us on this journey to explore Urdu Ghazals. Let’s enjoy their beauty and let them take us on an emotional ride through life’s ups and downs. Also read another interesting poetry.
تنگ آ گئے ہیں کیا کریں اس زندگی سے ہم
گھبرا کے پوچھتے ہیں اکیلے میں جی سے ہم
مجبوریوں کو اپنی کہیں کیا کسی سے ہم
لائے گئے ہیں آئے نہیں ہیں خوشی سے ہم
کمبخت دل کی مان گئے بیٹھنا پڑا
یوں تو ہزار بار اٹھے اس گلی سے ہم
یا رب برا بھی ہو دل خانہ خراب کا
شرما رہے ہیں اس کی بدولت کسی سے ہم
دن ہی پہاڑ ہے شب غم کیا ہو کیا نہ ہو
گھبرا رہے ہیں آج سر شام ہی سے ہم
دیکھا نہ تم نے آنکھ اٹھا کر بھی ایک بار
گزرے ہزار بار تمہاری گلی سے ہم
مطلب یہی نہیں دل خانہ خراب کا
کہنے میں اس کے آئیں گزر جائیں جی سے ہم
چھیڑا عدو نے روٹھ گئے ساری بزم سے
بولے کہ اب نہ بات کریں گے کسی سے ہم
تم سن کے کیا کرو گے کہانی غریب کی
جو سب کی سن رہا ہے کہیں گے اسی سے ہم
محفل میں اس نے غیر کو پہلو میں دی جگہ
گزری جو دل پہ کیا کہیں بسمل کسی سے ہم
ایک پرواز دکھائی دی ہے
تیری آواز سنائی دی ہے
صرف اک صفحہ پلٹ کر اس نے
ساری باتوں کی صفائی دی ہے
پھر وہیں لوٹ کے جانا ہوگا
یار نے کیسی رہائی دی ہے
جس کی آنکھوں میں کٹی تھیں صدیاں
اس نے صدیوں کی جدائی دی ہے
زندگی پر بھی کوئی زور نہیں
دل نے ہر چیز پرائی دی ہے
آگ میں کیا کیا جلا ہے شب بھر
کتنی خوش رنگ دکھائی دی ہے
دور رفتہ دیکھ لیتا ہوں گلستاں دیکھ کر
گل کو خنداں دیکھ کر بلبل کو گریاں دیکھ کر
ناخدا پر مطمئن تھے بندگان ناخدا
اب خدا یاد آ رہا ہے موج طوفاں دیکھ کر
سنگ دل سمجھا برہمن شیخ سمجھے حد مذاق
ہنس پڑے دونوں مجھے اب تک مسلماں دیکھ کر
شکوہ فرماتے ہی الٹی منتیں کرنی پڑیں
دل پشیماں ہو گیا ان کو پشیماں دیکھ کر
اس مشقت گاہ میں راحت کا یہ گوشہ حفیظ
دیکھ لو اور خوش رہو گور غریباں دیکھ کر
heart touching urdu ghazals
دنیا میں ترے عشق کا چرچا نہ کریں گے
مر جائیں گے لیکن تجھے رسوانہ کریں گے
قربان کریں گے کبھی دل جاں کبھی صدقے
تم اپنا بنا لو گی تو کیا کیا نہ کریں گے
گستاخ نگاہوں سے اگر تم کو گلہ ہے
ہم دور سے بھی اب تمہیں دیکھا نہ کریں گے
اختر یہ گھٹائیں یہ ہوائیں یہ فضائیں
توبہ کریں اس حال میں توبہ نہ کریں گے
چاند تاروں کی بھری بزم اٹھی جاتی ہے
اب تو آ جاؤ حسیں رات ڈھلی جاتی ہے
رفتہ رفتہ تری ہر یاد مٹی جاتی ہے
گرد سی وقت کے چہرے پہ جمی جاتی ہے
میرے آگے سے ہٹا لو مے و مینا و سبو
ان سے کچھ اور مری پیاس بڑھی جاتی ہے
آج اپنے بھی پرائے سے نظر آتے ہیں
پیار کی رسم زمانے سے اٹھی جاتی ہے
کس لیے کس کے لیے کس کے نظارے کے لیے
چاند تاروں سے ہر اک رات سجی جاتی ہے
نہ ہوائیں ہیں موافق نہ فضائیں لیکن
آپ ہی آپ کلی دل کی کھلی جاتی ہے
لاکھ سمجھائے کوئی لاکھ بجھائے پھر بھی
دل سے جاوید کہیں دل کی لگی جاتی ہے
تشنہ لب کہتے رہے سنتی رہی پیاسی رات
صبح تک چلتی رہی درد تہ جام کی بات
یہ ہوس پیشہ ہوس کار ہوس خو دنیا
خوب ہے جس میں بھٹکتی ہے گزر گاہ نجات
پڑتے ہی دل پہ کسی شوخ نظر کا پرتو
جگمگانے لگی دھڑکن تو سجے محسوسات
جگمگاتی ہے کرن درد کی دھڑکن دھڑکن
آپ کو پیش کروں پیار کی رنگیں سوغات
اک مسیحا کی نشانی ہے یہ ہنستا ہوا زخم
ہم کو درکار نہیں مرہم و درمان حیات
وقت ظالم ہے مٹا دیتا ہے شدادوں کو
آپ کا ظلم ہے کیا آپ کی کیا ہے اوقات
جام و آئینہ یہی دل تھا کسی دن جاوید
اس نے توڑا ہے جسے سنگ دلی سے ہیہات
دل کی خاطر ہی زمانے کی بلا ہو جیسے
زندگی اپنے گناہوں کی سزا ہو جیسے
دل کی وادی میں تمناؤں کی رنگا رنگی
کوئی میلا کسی بستی میں لگا ہو جیسے
ہاں پکارا ہے غم زیست نے یوں بھی ہم کو
پیار میں ڈوبی ہوئی تیری صدا ہو جیسے
جادۂ شوق میں جلتے ہیں دیے دور تلک
اپنا ہر نقش قدم راہنما ہو جیسے
دل جلاؤ بھی کہ جاوید اندھیرا ہے بہت
روشنی راہ گزاروں سے خفا ہو جیسے
آنکھوں میں بس رہا ہے ادا کے بغیر بھی
دل اس کو سن رہا ہے صدا کے بغیر بھی
کھلتے ہیں چند پھول بیاباں میں بے سبب
گرتے ہیں کچھ درخت ہوا کے بغیر بھی
میں ہوں وہ شاہ بخت کہ دربار حسن میں
چلتا ہے اپنا کام وفا کے بغیر بھی
منصف کو سب خبر ہے مگر بولتا نہیں
مجھ پر ہوا جو ظلم سزا کے بغیر بھی
بندوں نے جب سے کام سنبھالا ہے دہر کا
نازل ہے روز قہر خدا کے بغیر بھی
اردو غزل کے دم سے وہ تہذیب بچ گئی
مٹنے کا جس کے گل تھا فنا کے بغیر بھی
بسر ہو یوں کہ ہر اک درد حادثہ نہ لگے
گزر بھی جائے کوئی غم تو واقعہ نہ لگے
کبھی نہ پھول سے چہرے پہ گرد یاس جمے
خدا کرے کہ اسے عشق کی ہوا نہ لگے
نظر نہ آئے مجھے حسن کے سوا کچھ بھی
وہ بے وفا بھی اگر ہے تو بے وفا نہ لگے
یہی دعا ہے وہ جب ہو جمال سے آگاہ
لباس ناز بھی پہنے تو دوسرا نہ لگے
وہ مہرباں سا لگے اس کی کچھ کرو تدبیر
خفا بھی ہو تو مری آنکھ کو خفا نہ لگے
ملے جو نور طلب دل بھی یوں منور ہو
مرا حریف بھی شام و سحر برا نہ لگے
کہاں سے لاؤں حسن گفتگو میں وہ انداز
مرا کلام کسی کو بھی بے مزا نہ لگے
خیال و خواب میں کب تک یہ گفتگو ہوگی
اٹھاؤ جام کہ اب بات رو بہ رو ہوگی
ابھی ہوں پاس تو وہ اجنبی سے بیٹھے ہیں
میں اٹھ گیا تو بہت میری جستجو ہوگی
مجھے بتاؤ تو کچھ کام آ سکوں شاید
تمہارے دل میں بھی اک فصل آرزو ہوگی
تجھی کو ڈھونڈھتا پھرتا تھا در بہ در پھر بھی
مجھے یقین تھا رسوائی کو بہ کو ہوگی
بدل گیا بھی اگر وہ تو دیکھنے میں نعیم
وہی لباس وہی شکل ہو بہ ہو ہوگی