Heart Touching Islamic Quotes In Urdu
In this Urdu blog post, I will share heart Touching Islamic Quotes In Urdu. So, if you like my post with a picture, share your friends, family, and parents. because you like my post this is the best Islamic Quotes in Urdu. It is free to download Urdu quotes and pictures and easy to use for WhatsApp status and anywhere. So let’s get started on the journey of Islamic Quotes in Urdu. Also, read another amazing post:
جس شخص کی زبان اس پر حاکم بن جائے وہ ذلیل ہو کر رہتا ہے
عقلمند کا سینہ اس کے رازوں کا صندوق ہوتا ہے
انسان پر تعجب کروں جو چکنائی سے بنی ہوئی چیز سے دیکھتا ہے گوشت زبان سے بولتا ہے
ہڈی سے سنتا ہے اور ایک خالی جگہ سے سونگھتا ہے
جب دنیا کسی کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی اسے مل جاتی ہیں
اور جب کسی سے رخ پھیرتی ہے تو اس کی خوبیوں سے بھی اسے محروم کر دیتی ہے
سب سے کمزور ادمی وہ ہے جو لوگوں کو دوست نہ بنا سکے اور اس سے بھی کمزور
وہ شخص ہے جو لوگوں کو دوست بنانے کے بعد ضائع کر دے
جس کے قریبی لوگ اس کی قدر نہیں کرتے تو وہ دور والیے اس کی توقیر و تعظیم لگ جاتے ہیں
ہیبت و خوف سے ناکامی اور حد سے زیادہ حیا کرنے سے محرومی ملتی ہے
مواقع بادلوں کی طرح اتے جاتے رہتے ہیں بس اگر کسی خیر کا موقع مل جائے تو اسے ضائع مت کرو
یا ابن ادم تو دیکھ رہا ہے کہ تیرا رب تجھ پر ہر ان ہرگڑی نعمتیں برسا رہا ہے
جبکہ تو اس کی مصیبت پر ڈٹا ہوا ہے نعمتوں کو دیکھ کر تجھے گناہ سے باز ا جانا چاہیے
جب کوئی کسی بات کو چھپاتا ہے تو وہ اس کی زبان کی لغزش
اور چہرے کے خد و خال سے ظاہر ہوتی جاتی ہے
جب تک بیماری کے ساتھ کام کرنا ممکن ہو کرتے رہو
سب سے افضل زہد زہد کو چھپانا ہے
سب سے بڑی مالداری امید کو خیر باد کہنا ہے
جس کی امید لمبی ہوگی اس کا عمل خراب ہو جائے گا
اگر نفلی عبادت فرائض میں نقصان کا سبب بن رہی ہو تو ایسے نوافل سے ثواب حاصل نہ ہوگا
وہ گناہ جو اپ کو غمگین کر دے اس نیکی سے بہر ہے جو اپ کو عجب
خود پسندی میں مبتلا کر دے
سخاوت وہ ہے جو بن مانگے عطا کیا جائے اور چیز مانگ کر دی جائے وہ حیا
اور شرمندگی سے بچنے کے لیے ہے
heart touching Islamic Quotes In Urdu
عقل جیسی مالداری نہیں جہالت جیسی ناداری نہیں ادب جیسی میراث کوئی نہیں
اور مشورہ جیسی دانشمندی کوئی نہیں
صبر دو طرح کا ہوتا ہے کہ وہ صبر جو کسی ناگوار صورت کے پیش انے پر کیا جائے
تو دوسرا وہ سفر جو کسی محبوب چیز سے محرومی پر کیا جائے
مال تمام شہوات کا مادہ اور بنیاد ہے
زبان ایک درندہ ہے اگر اسے ازا چھوڑ دیا جائے تو ہلاک کر دے گا
محبوب لوگوں کو کھو دینا انسان کو وطن میں بھی پردے سے بنا دیتا ہے
جب عقل کامل ہو جاتی ہے تو کلام کم ہو جاتا ہے
مجھے اس شخص پر تعجب ہوتا ہے جو اللہ تعالی کی رحمت سے نا امید ہو بیٹھا ہے
حالانکہ اس کے پاس استغفار موجود ہے
جو شخص اپنے اور اللہ کے تعلق کو درست کر لے گا اللہ تعالی اس کے
اور لوگوں کے تعلق کو درست کر دے گا
کامیاب کی وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے نا امید نہ کرے
اور انہیں اللہ کے عذاب سے مامون نہ کریں
تقوی کے ساتھ تھوڑا عمل بھی بہت ہے جو چیز قبول ہو جائے وہ تھوڑی کیسے ہو سکتی ہے
دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے اس کا ظاہر نرم و ملائم اور دلکش ہے جبکہ
اس کے اندر ہلاکت خیر زہر چھپا ہوا ہے
جس شخص کے دل میں خالق کی عظمت ہوتی ہے ساری مخلوق اس
کی نگاہ میں چھوٹی ہو جاتی ہے
صدقہ کے ذریعے اللہ تعالی سے رزق طلب کرو
اپنے اپ کو تہمت کی جگہوں پر لے جانے والا اس شخص کو ملامت نہ کرے جو
اس کے بارے میں بدگمانی کرتا ہے
فقر بڑی موت ہے
Islamic Quotes In Urdu text
لوگ جس چیز سے نہ وافق ہوں اس کے دشمن ہوتے ہیں
سینے کا کشادہ پن سرداری کا زینہ ہے
جسے صبر فائدہ نہ پہنچا سکے اسے بے صبری ہلاکت کر دیتی ہے
لالچی ذلت کی بیڑیوں میں جکڑا رہتا ہے
مختلف حالات کے الٹ پلٹ ہونے میں ادمی کے جواہر کا پتہ چلتا ہے
ہر برتن کی یہ حالت ہے کہ جب اس میں کچھ ڈالی جائے تو وہ تنگ ہوتا ہے
لیکن علم کا برتن ایسا ہے کہ جب اس میں کوئی ڈالی جائے تو وہ کھلتا چلا جاتا ہے
اگر کوئی شخص اپ کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہے تو وہ اپ
اس کے گمان کو سچا کر کے دکھائیں
میں نے اللہ تعالی کو ارادوں کے ٹوٹنے اور نیتوں کے بکھرنے سے پہچانا
غیرت مند ادمی کبھی زنا نہیں کرتا
موت بہترین پہرے دار ہے
ادمی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالی کے
خزانوں پر اس کا اعتماد اپنے پاس موجود چیزوں سے زیادہ نہ ہو جائے
ہر ادمی کے مال میں دو شریک ہوتے ہیں ایک وارث دوسرا حوادثات زمانہ
islamic poetry quotes in urdu
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھو کریں سب کی کھائے کیوں
دِل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں
رُخصتِ قافلہ کا شور غش سے ہمیں اُٹھائے کیوں
سوتے ہیں اُن کے سایہ میں کوئی ہمیں جگائے کیوں
بار نہ تھے حبیب کو پالتے ہی غریب کو
روئیں جو اَبْ نصیب کو چین کہو گنوائے کیوں
یادِ حُضور کی قسم غفلتِ عیش ہے سِتم
خُوب ہیں قیدِ غم میں ہم کوئی ہمیں چُھڑائے کیوں
دیکھ کے حضرتِ غنی پھیل پڑے فقیر بھی
چھائی ہے اب تو چھاؤنی حشر ہی آنہ جائے کیوں
جان ہے عشقِ مصطفٰے روز فَزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اُٹھائے کیوں
ہم تو ہیں آپ دِل فِگار غم میں ہنسی ہے ناگوار
چھیڑ کے گُل کو نوبہار خون ہمیں رُلائے کیوں
یا تو یوں ہی تڑپ کے جائیں یا وہی دام سے چھڑائیں
مِنّت غیر کیوں اُٹھائیں کوئی ترس جتائے کیوں
اُن کے جلال کا اثر دل سے لگائے ہے قمر
جو کہ ہو لوٹ زخم پر داغِ جگر مٹائے کیوں
خوش رہے گُل سے عندلیب خارِ حرم مجھے نصیب
میری بَلا بھی ذِکر پر پھول کے خار کھائے کیوں
گردِ ملال اگر دُھلے دِل کی کلی اگر کِھلے
بَرق سے آنکھ کیوں جلے رونے پہ مسکرائے کیوں
جانِ سفر نصیب کو کس نے کہا مزے سے سو
کھٹکا اگر سحر کا ہو شام سے موت آئے کیوں
اب تو نہ روک اے غنی عادتِ سگ بگڑ گئی
میرے کریم پہلے ہی لقمہ تر کھلائے کیوں
راہِ نبی میں کیا کمی فرشِ بیاض دِیدہ کی
چادرِ ظل ہے مَلْگجی زیرِ قدم بچھائے کیوں
سنگِ درِ حضور سے ہم کو خدا نہ صبر دے
جانا ہے سر کو جا چکے دل کو قرار آئے کیوں
ہے تو رضاؔ نِرا سِتَم جُرم پہ گر لجائیں ہم
کوئی بجائے سوزِ غم سازِ طَرَب بجائے کیوں
خراب حال کیا دِل کو
خراب حال کیا دِل کو پُرمَلال کیا
تمہارے کُوچہ سے رُخصت کیا نہال کیا
نہ رُوئے گُل ابھی دیکھا نہ بُوئے گُل سُونگھی
قضا نے لا کے قفس میں شکستہ بال کیا
وہ دل کہ خوں شدہ ارماں تھے جس میں مل ڈالا
فُغاں کہ گورِ شہیداں کو پائمال کیا
یہ رائے کیا تھی وہاں سے پلٹنے کی اے نفس
سِتم گر اُلٹی چُھری سے ہمیں حلال کیا
یہ کب کی مجھ سے عداوت تھی تجھ کو اے ظالِم
چُھڑا کے سنگِ درِ پاک سر وَبال کیا
چمن سے پھینک دیا آشیانۂ بلبل
اُجاڑا خانۂ بے کس بڑا کمال کیا
تِرا ستم زدہ آنکھوں نے کیا بِگاڑا تھا
یہ کیا سمائی کہ دُور ان سے وہ جمال کیا
حضور اُن کے خیالِ وطن مٹانا تھا
ہم آپ مِٹ گئے اچھا فراغ بال کیا
نہ گھر کا رکھا نہ اس دَر کا ہائے ناکامی
ہماری بے بسی پر بھی نہ کچھ خیال کیا
جو دِل نے مَر کے جلایا تھا منّتوں کا چراغ
سِتَم کہ عرض رہِ صرصر زَوال کیا
مَدینہ چھوڑ کے وِیرانہ ہندؔ کا چھایا
یہ کیسا ہائے حواسوں نے اِختلال کیا
تُو جس کے واسطے چھوڑ آیا طیبہ سا محبوب
بتا تو اس ستم آرا نے کیا نہال کیا
اَبھی اَبھی تو چمن میں تھے چہچہے ناگاہ
یہ دَرْد کیسا اُٹھا جس نے جی نڈھال کیا
الٰہی سُن لے رضاؔ جیتے جی کہ مولیٰ نے
سگانِ کوچہ میں چہرہ مِرا بحال کیا
صبح طیبہ میں ہوئی
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا
باغِ طیبہ میں سہانا پھول پھولا نور کا
مستِ بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا
بارہویں کے چاند کا مُجرا ہے سجدہ نور کا
بارہ بُرجوں سے جھکا ایک اِک سِتارہ نور کا
ان کے قَصْرِ قَدْر سے خُلْد ایک کمرہ نور کا
سِدْرَہ پائیں باغ میں ننھا سا پودا نور کا
عرش بھی فِردوس بھی اس شاہِ والا نور کا
یہ مُثَمَّن بُرج وہ مُشکُوئے اَعلیٰ نور کا
آئی بدعت چھائی ظلمت رنگ بدلا نور کا
ماہِ سُنّت مِہْرِ طَلْعت لے لے بدلا نور کا
تیرے ہی ماتھے رہا اے جان سہرا نور کا
بخت جاگا نور کا چمکا ستارا نور کا
میں گدا تو بادشاہ بھر دے پیالہ نور کا
نور دن دُونا تِرا دے ڈال صدقہ نور کا
تیری ہی جانب ہے پانچوں وقت سجدہ نور کا
رُخ ہے قبلہ نور کا اَبرو ہے کعبہ نور کا
پُشت پر ڈَھلکا سرِ انور سے شَمْلَہ نور کا
دیکھیں موسیٰ طُور سے اُترا صَحِیفہ نور کا
تاج والے دیکھ کر تیرا عِمامہ نور کا
سر جھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نور
بِینیِ پُرنور پر رَخشاں ہے بُکّہ نور کا
ہے لِوَاءُ الْحَمْد پر اُڑتا پھَریرا نور کا
مُصْحَفِ عارِض پہ ہے خطِ شَفِیْعَہ نور کا
لو سِیَہ کارو مبارک ہو قَبَالَہ نور کا
آبِ زر بنتا ہے عارِض پر پسینہ نور کا
مُصْحَفِ اِعجاز پر چڑھتا ہے سونا نور کا
پیچ کرتا ہے فدا ہونے کو لَمْعَہ نور کا
گردِ سر پھرنے کو بنتا ہے عِمامَہ نور کا
ہیبت عارض سے تھراتا ہے شعلہ نور کا
کَفشِ پا پر گر کے بن جاتا ہے گُپّھا نور کا
شمع دل مِشکوٰۃ تن سینہ زُجا جَہ نور کا
تیری صورت کے لئے آیا ہے سُورہ نور کا
مَیل سے کس درجہ ستھرا ہے وہ پُتلا نور کا
ہے گلے میں آج تک کورا ہی کُرتا نور کا
تیرے آگے خاک پر جھکتا ہے ماتھا نور کا
نور نے پایا تِرے سجدے سے سِیْما نور کا
تو ہے سایہ نور کا ہر عُضْو ٹکڑا نور کا
سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا
کیا بَنا نامِ خدا اَسرا کا دولہا نور کا
سر پہ سہرا نور کا بَر میں شَہانہ نور کا
بزمِ وَحْدَت میں مزا ہو گا دوبالا نور کا
ملنے شمعِ طور سے جاتا ہے اِکّا نور کا
وصفِ رخ میں گاتی ہیں حوریں ترانہ نور کا
قدرتی بِینوں میں کیا بجتا ہے لَہْرا نور کا
یہ کتابِ کُن میں آیا طُرفہ آیَہ نور کا
غیرِ قائل کچھ نہ سمجھا کوئی معنیٰ نور کا
دیکھنے والوں نے کچھ دیکھا نہ بھالا نور کا
مَنْ رَاٰی کیسا یہ آئینہ دکھایا نور کا
صبح کر دی کفر کی سچا تھا مُژدہ نور کا
شام ہی سے تھا شبِ تِیرہ کو دھڑکا نور کا
پڑتی ہے نوری بھرن امڈا ہے دریا نور کا
سر جھکا اے کِشْتِ کفر آتا ہے اَہلا نور کا
ناریوں کا دور تھا دل جل رہا تھا نور کا
تم کو دیکھا ہو گیا ٹھنڈا کلیجا نور کا
نَسْخ اَدیاں کر کے خود قبضہ بٹھایا نور کا
تاجْور نے کر لیا کچا علاقہ نور کا
جو گدا دیکھو لیے جاتا ہے توڑا نور کا
نور کی سرکار ہے کیا اس میں توڑا نور کا
بھیک لے سرکار سے لا جلد کاسہ نور کا
ماہِ نو طیبہ میں بٹتا ہے مہینہ نور کا
دیکھ ان کے ہوتے نازیبا ہے دعویٰ نور کا
مِہْر لکھ دے یاں کے ذرّوں کو مُچَلْکا نور کا
یاں بھی داغِ سجدۂ طَیبہ ہے تَمغا نور کا
اے قمر کیا تیرے ہی ماتھے ہے ٹِیکا نور کا
شمع ساں ایک ایک پروانہ ہے اس با نور کا
نورِ حق سے لو لگائے دل میں رشتہ نور کا
اَنجمن والے ہیں اَنجم بَزم حلقہ نور کا
چاند پر تاروں کے جھرمَٹ سے ہے ہالہ نور کا
تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانا نور کا
نور کی سرکار سے پایا دوشالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذُو النُّوْرَیْن جوڑا نور کا
کس کے پردے نے کیا آئینہ اندھا نور کا
مانگتا پھرتا ہے آنکھیں ہر نگینہ نور کا
اب کہاں وہ تابِشیں کیسا وہ تڑکا نور کا
مِہْر نے چھپ کر کیا خاصا دُھنْدَلْکا نور کا
تم مُقابِل تھے تو پہروں چاند بڑھتا نور کا
تم سے چھٹ کر منھ نکل آیا ذرا سا نور کا
قبرِ انور کہیے یا قصرِ مُعلّٰے نور کا
چَرخِ اَطلَس یا کوئی سادہ سا قُبّہ نور کا
آنکھ مِل سکتی نہیں در پر ہے پہرا نور کا
تاب ہے بے حکم پَر مارے پرندہ نور کا
نَزع میں لوٹے گا خاکِ در پہ شیدا نور کا
مَر کے اوڑھے گی عَروسِ جاں دوپٹا نور کا
تابِ مِہرِ حشر سے چونکے نہ کُشْتہ نور کا
بوندیاں رحمت کی دینے آئیں چھینٹا نور کا
وضْعِ واضع میں تِری صورت ہے معنی نور کا
یوں مَجازاً چاہیں جس کو کہہ دیں کلمہ نور کا
اَنبیا اَجزا ہیں تو بالکل ہے جملہ نور کا
اس علاقے سے ہے اُن پر نام سچا نور کا
یہ جو مِہر و مَہ پہ ہے اِطلاق آتا نور کا
بھیک تیرے نام کی ہے اِستِعارَہ نور کا
سُرمَگیں آنکھیں حَریمِ حق کے وہ مُشکِیں غَزال
ہے فضائے لامکاں تک جن کا رَمنا نور کا
تابِ حُسنِ گرم سے کھل جائیں گے دل کے کَنول
نو بہاریں لائے گا گرمی کا جھلکا نور کا
ذرّے مِہرِ قُدس تک تیرے تَوَسُّط سے گیے
حدِّ اَوسَط نے کیا صُغریٰ کو کُبریٰ نور کا
سبزۂ گَردوں جھکا تھا بہرِ پا بوسِ بُراق
پھر نہ سیدھا ہو سکا کھایا وہ کوڑا نور کا
تابِ سم سے چوندھیا کر چاند اُنھیں قدموں پھرا
ہنس کے بجلی نے کہا دیکھا چھلاوا نور کا
دیدِ نقشِ سُم کو نکلی سات پَردوں سے نگاہ
پُتلیاں بولیں چلو آیا تماشا نور کا
عکسِ سم نے چاند سُورج کو لگائے چار چاند
پڑگیا سِیم و زرِ گَردوں پہ سکہ نور کا
چاند جھک جاتا جِدھر اُنگلی اٹھاتے مَہد میں
کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا
ایک سینہ تک مُشابہ اک وہاں سے پاؤں تک
حُسنِ سِبطَین ان کے جاموں میں ہے نِیْما نور کا
صاف شکلِ پاک ہے دونوں کے ملنے سے عِیاں
خط تَواَم میں لکھا ہے یہ دو۲ وَرقہ نور کا
کٓ گیسو ٰ ہ دَہن یٰ ابرو آنکھیں عٓ صٓ
کٓھٰیٰعٓصٓ اُن کا ہے چہرہ نور کا
اے رضاؔ یہ احمدِ نوری کا فیضِ نور ہے
ہوگئی میری غَزل بڑھ کر قصیدہ نور کا