Hasrat poetry in Urdu
Welcome to our journey through hasrat poetry in Urdu! This special type of poetry talks about strong emotions like longing and desire. It helps us understand how people feel deeply inside. Hasrat poetry tells stories about love, connection, and wanting something badly. It shows us how complex human feelings can be.
Throughout history, Urdu poets have written beautiful verses that touch our hearts. From old poets like Mirza Ghalib to new ones like Faiz Ahmed Faiz, Hasrat’s poetry is loved by people around the world. In this blog series, we’ll explore the beauty of Hasrat poetry together. We’ll look at poems from famous poets and learn why their words are so powerful. Get ready to feel the magic of Urdu Hasrat poetry with us! Also, read umeed poetry.
اگر ہے زندگی باقی تو ہم حسرت نکالیں گے
دل پر آرزو پر خاک ڈالے جس کا جی چاہے
جانب در نگاہ حسرت ہے
کس کی کرتی ہے انتظاری آنکھ
نزع تک دیدار کی حسرت رہی مشتاق کو
اے مسیحا مر گیا بیمار شربت مانگتا
تیرا لہجہ اپنایا اب دل میں حسرت سی ہے
اپنی کوئی بات کبھی تو اپنی زبانی کہتے
یہ حسرت کی لذت یہ ذوق تمنا
شب وصل ان سے حیا چاہتا ہوں
مری حسرتیں اس قدر بھر گئی ہیں
کہ اب تیرے کوچے میں رستا نہیں ہے
ایک دم میں ہزار دفتر طے
چشم حسرت غضب سخن گو ہے
hasrat poetry in urdu
آسیؔ طرب کدہ تھا کبھی یہ دل حزیں
اے وائے آج حسرت و غم کا مزار ہے
پھر ہو رہی ہیں پیار کی سب حسرتیں جواں
پھر دل اسی کی یاد سے بہلا رہا ہوں میں
مست امنگوں کے جھونکے اور فاقہ مستی کا عالم
حسرت کی تیز ہوائیں بھی امید کی آتش باری بھی
آ کہ چاہت وصل کی پھر سے بڑی پر زور ہے
آ کہ دل میں حسرتوں نے پھر مچایا شور ہے
جب بہاریں بے وفا نکلیں تو کس امید پر
انتظار گل کی حسرت باغباں لے کر چلے
گماں تھا یہ کہ دب گئیں وہ حسرتوں کی بجلیاں
یہ کون سی نئی چمک بجھے دیے جلا گئی
کسی کے پاس دل ہوتا تو شرح درد دل کرتے
یہ حسرت رہ گئی ہم کو کوئی درد آشنا ہوتا
مرے دل میں کسی حسرت کے پس انداز ہونے تک
نمٹ ہی جائے گا کار جہاں آہستہ آہستہ
اٹھائے پھر رہا ہوں حسرت تعمیر کی اینٹیں
جہاں سایہ نہیں ہوتا وہیں دیوار کرتا ہوں
حسرت دید نہیں ذوق تماشا بھی نہیں
کاش پتھر ہوں نگاہیں مگر ایسا بھی نہیں
کتر دئے ہیں زمانے نے پنکھ خوابوں کے
بھرا ہے ساغر حسرت میں آرزوؤں کا خوں
چڑھایا دار پہ اور کر دیا مجھے زندہ
یہ اور کچھ ہوا حسرت ہے امتحاں نہ ہوا
ہم شیش گھر میں اپنا سراپا نہ پڑھ سکے
حسرت رہی کہ آئنے اک بار بولتے
ہم نے حسرتوں کے داغ آنسوؤں سے دھو لیے
آپ کی خوشی حضور بولئے نہ بولئے
کوچہ سے ترے کوچ ہے اے یار ہمارا
جی لے ہی چلی حسرت دیدار ہمارا
hasrat poetry 2 line
اب تو حسرت ہے کہ برباد کیا ہے جس نے
اس کا دیوانہ مجھے کہہ کے پکارا جائے
میری نظر نے لوٹ لئے جلوہ ہائے حسن
حسرت سے دیکھتے ہی رہے دیدہ ور تمام
حرف حسرت ہے تم نے کیا سمجھا
زندگی داستاں نہیں ہوتی
دیکھ رہا تھا جاتے جاتے حسرت سے
سوچ رہا ہوگا میں اس کو روکوں گا
تمہارے شہر میں آنے کی جس کو حسرت تھی
تمہارے شہر میں آ کر وہ رو پڑا ہوگا
دل ہے ناکامیوں کی لذت ہے
نہ تمنا ہے اب نہ حسرت ہے
نہ آئے گا لب پہ حرف مطلب نہ کھل سکے گی زبان کیفیؔ
نگاہ حسرت کو ترجماں کر خموشیوں کو جواب کر دے
ہر گھڑی اب حسرتوں کی لاش دیتی ہے دھواں
اک عجب شمشان میرے دل کی ویرانی میں ہے
ابھی وسیلۂ اظہار ڈھونڈھتی ہے نگاہ
ابھی سوال کہاں حسرت سوال میں ہوں
رنج غم درد بے کسی حسرت
میرؔ کا جیسے انتخاب ہوں میں
حسرت جو آ گئی وہ نکل ہی نہیں سکی
وا ہو سکے جو ابرؔ وہ زنداں نہیں ہیں ہم
دیکھنے کی تجھے کچھ دل میں ہے حسرت بھی ابھی
اور یہ بھی کہ ترے شہر میں آئے ہوئے ہیں
کسی کو پا لیا تم نے تو چھوڑ کر مجھ کو
کوئی علاج تو کر دو مری بھی حسرت کا
بھر آوے آب حسرت اس کے منہ میں جب لہر آوے
اگر دیکھے ترے ان نرم گالوں کے تھلک دریا
شوق کا انجام نکلا حسرت آغاز شوق
راز بن جانے سے پہلے راز افشا ہو گئے
حسرت دید رہی دید کا خواہاں ہو کر
دل میں رہتے ہیں مگر رہتے ہیں ارماں ہو کر
خوشی کی بات ہے نکلی تو حسرت دیدار
کرم نواز کو سب کچھ لٹا کے دیکھ لیا
اے چشم حقیقت بیں دل کی ہے بساط اتنی
اک چھوٹا سا ٹکڑا ہے آئینۂ حسرت کا
حسرتوں کی پناہ گاہوں میں
کیا ٹھکانے ہیں سر چھپانے کو
عمر تمام کاٹ دی حسرت کاخ و کو لیے
میرے تمہارے سامنے ارض و سما بھی کیوں کھلے
سفر کی حسرتیں نکلیں بہت مری یا رب
مگر جو دل میں تھے ارمان وہ کہاں نکلے
جب کھینچ لیا ہے مجھے میدان ستم میں
دل کھول کے حسرت بھی نکالے کوئی آ کر
میں چراغ حسرت نیم شب میں شرار آتش جاں بہ لب
دل پر امید کی لو تھا میں مجھے خود وہ آ کے بجھا گیا
اسی کو کامیاب دید کہتے ہیں نظر والے
وہ عاشق جو ہلاک حسرت دیدار ہو جائے
مدد اے لذت ذوق اسیری اب یہ حسرت ہے
قفس والے بدل لیتے ہمارا آشیاں ہم سے
جو جسم تمنا میں سلگتا ہے تمہاری
اس جسم میں حسرت بھری اک رات تو دیکھو
یاس ہے حسرت ہے غم ہے اور شب دیجور ہے
اتنے ساتھی ہیں مگر تنہا دل رنجور ہے
سحر دیکھیں یہ حسرت لے گئے ہم
بتائیں کیا تمہیں کیوں کر سحر کی
حسرت دید میں بینائی گنوا بیٹھے جو
اس سے کیسے ترا دیدار کیا جائے گا
چراغ یاس و حسرت ہم ہیں محفل میں حسینوں کی
جلائے جس کا جی چاہے بجھائے جس کا جی چاہے
نصف شب تک دی تسلی پھر وہ یوسف اٹھ گیا
خواب حسرت کی مری تعبیر آدھی رہ گئی
رہا کرتے ہیں یوں عشاق تیری یاد و حسرت میں
بسے رہتے ہیں جیسے پھول اپنی اپنی نکہت میں