famous Anwar Masood poetry

Anwar Masood, a celebrated Pakistani poet, has a unique gift for crafting words that speak directly to our hearts. Anwar Masood poetry is a masterful blend of wit, wisdom, and emotional depth, offering a fresh perspective on life, love, and the human experience. With a style that’s both accessible and profound, Anwar Masood’s poetry has captivated readers for generations. In this blog, we’ll delve into the magic of his words, exploring how his poetry inspires us to see the world in a new light and find beauty in everyday moments. Also read another famous poet ghazal.

anwar masood poetry

کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے
اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چھپاؤں اپنے

میں تو قائم ہوں ترے غم کی بدولت ورنہ
یوں بکھر جاؤں کہ خود ہاتھ نہ آؤں اپنے

شعر لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لیے
تو ملے تو میں تجھے شعر سناؤں اپنے

تیرے رستے کا جو کانٹا بھی میسر آئے
میں اسے شوق سے کالر پر سجاؤں اپنے

سوچتا ہوں کہ بجھا دوں میں یہ کمرے کا دیا
اپنے سائے کو بھی کیوں ساتھ جگاؤں اپنے

اس کی تلوار نے وہ چال چلی ہے اب کے
پاؤں کٹتے ہیں اگر ہاتھ بچاؤں اپنے

آخری بات مجھے یاد ہے اس کی انورؔ
جانے والے کو گلے سے نہ لگاؤں اپنے

anwar masood poetry

اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے
وہ ایک بار ملے تھے تو پھر ملا کرتے

کواڑ گرچہ مقفل تھے اس حویلی کے
مگر فقیر گزرتے رہے صدا کرتے

ہمیں قرینۂ رنجش کہاں میسر ہے
ہم اپنے بس میں جو ہوتے ترا گلا کرتے

تری جفا کا فلک سے نہ تذکرہ چھیڑا
ہنر کی بات کسی کم ہنر سے کیا کرتے

تجھے نہیں ہے ابھی فرصت کرم نہ سہی
تھکے نہیں ہیں مرے ہاتھ بھی دعا کرتے

انہیں شکایت بے ربطی سخن تھی مگر
جھجک رہا تھا میں اظہار مدعا کرتے

چقیں گری تھیں دریچوں پہ چار سو انورؔ
نظر جھکا کے نہ چلتے تو اور کیا کرتے

famous anwar masood poetry

اگلے دن کچھ ایسے ہوں گے
چھلکے پھلوں سے مہنگے ہوں گے

ننھی ننھی چیونٹیوں کے بھی
ہاتھی جیسے سائے ہوں گے

بھیڑ تو ہوگی لیکن پھر بھی
سونے سونے رستے ہوں گے

پھول کھلیں گے تنہا تنہا
جھرمٹ جھرمٹ کانٹے ہوں گے

لوگ اسے بھگوان کہیں گے
جس کی جیب میں پیسے ہوں گے

ریت جلے گی دھوپ میں انورؔ
برف پہ بادل چھائے ہوں گے

درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاؤ
کچھ نہ کچھ میری وفاؤں کا صلا دے جاؤ

یوں نہ جاؤ کہ میں رو بھی نہ سکوں فرقت میں
میری راتوں کو ستاروں کی ضیا دے جاؤ

ایک بار آؤ کبھی اتنے اچانک پن سے
نا امیدی کو تحیر کی سزا دے جاؤ

دشمنی کا کوئی پیرایۂ نادر ڈھونڈو
جب بھی آؤ مجھے جینے کی دعا دے جاؤ

وہی اخلاص و مروت کی پرانی تہمت
دوستو کوئی تو الزام نیا دے جاؤ

کوئی صحرا بھی اگر راہ میں آئے انورؔ
دل یہ کہتا ہے کہ اک بار صدا دے جاؤ

رات آئی ہے بلاؤں سے رہائی دے گی
اب نہ دیوار نہ زنجیر دکھائی دے گی

وقت گزرا ہے پہ موسم نہیں بدلا یارو
ایسی گردش ہے زمیں خود بھی دہائی دے گی

یہ دھندلکا سا جو ہے اس کو غنیمت جانو
دیکھنا پھر کوئی صورت نہ سجھائی دے گی

دل جو ٹوٹے گا تو اک طرفہ چراغاں ہوگا
کتنے آئینوں میں وہ شکل دکھائی دے گی

ساتھ کے گھر میں ترا شور بپا ہے انورؔ
کوئی آئے گا تو دستک نہ سنائی دے گی

جس طرح کی ہیں یہ دیواریں یہ در جیسا بھی ہے
سر چھپانے کو میسر تو ہے گھر جیسا بھی ہے

اس کو مجھ سے مجھ کو اس سے نسبتیں ہیں بے شمار
میری چاہت کا ہے محور یہ نگر جیسا بھی ہے

چل پڑا ہوں شوق بے پروا کو مرشد مان کر
راستہ پر پیچ ہے یا پر خطر جیسا بھی ہے

سب گوارا ہے تھکن ساری دکھن ساری چبھن
ایک خوشبو کے لئے ہے یہ سفر جیسا بھی ہے

وہ تو ہے مخصوص اک تیری محبت کے لئے
تیرا انورؔ با ہنر یا بے ہنر جیسا بھی ہ

پڑھنے بھی نہ پائے تھے کہ وہ مٹ بھی گئی تھی
بجلی نے گھٹاؤں پہ جو تحریر لکھی تھی

چپ سادھ کے بیٹھے تھے سبھی لوگ وہاں پر
پردے پہ جو تصویر تھی کچھ بول رہی تھی

لہراتے ہوئے آئے تھے وہ امن کا پرچم
پرچم کو اٹھائے ہوئے نیزے کی انی تھی

ڈوبے ہوئے تاروں پہ میں کیا اشک بہاتا
چڑھتے ہوئے سورج سے مری آنکھ لڑی تھی

اس وقت وہاں کون دھواں دیکھنے جائے
اخبار میں پڑھ لیں گے کہاں آگ لگی تھی

شبنم کی تراوش سے بھی دکھتا تھا دل زار
گھنگھور گھٹاؤں کو برسنے کی پڑی تھی

پلکوں کے ستارے بھی اڑا لے گئی انورؔ
وہ درد کی آندھی کہ سر شام چلی تھی

anwar masood poetry in urdu

میں دیکھ بھی نہ سکا میرے گرد کیا گیا تھا
کہ جس مقام پہ میں تھا وہاں اجالا تھا

درست ہے کہ وہ جنگل کی آگ تھی لیکن
وہیں قریب ہی دریا بھی اک گزرتا تھا

تم آ گئے تو چمکنے لگی ہیں دیواریں
ابھی ابھی تو یہاں پر بڑا اندھیرا تھا

لبوں پہ خیر تبسم بکھر بکھر ہی گیا
یہ اور بات کہ ہنسنے کو دل ترستا تھا

سنا ہے لوگ بہت سے ملے تھے رستے میں
مری نظر سے تو بس ایک شخص گزرا تھا

الجھ پڑی تھی مقدر سے آرزو میری
دام فراق اسے روکنا بھی چاہا تھا

مہک رہا ہے چمن کی طرح وہ آئینہ
کہ جس میں تو نے کبھی اپنا روپ دیکھا تھا

گھٹا اٹھی ہے تو پھر یاد آ گیا انورؔ
عجیب شخص تھا اکثر اداس رہتا تھا

اس حسیں کے خیال میں رہنا
عالم بے مثال میں رہنا

کب تلک روح کے پرندے کا
ایک مٹی کے جال میں رہنا

اب یہی نغمگی کی ندرت ہے
سر میں رہنا نہ تال میں رہنا

بے اثر کر گیا ہے واعظ کو
ہر گھڑی قیل و قال میں رہنا

انورؔ اس نے نہ میں نے چھوڑا ہے
اپنے اپنے خیال میں رہن

بس اب ترک تعلق کے بہت پہلو نکلتے ہیں
سو اب یہ طے ہوا ہے شہر سے سادھو نکلتے ہیں

ہم آ نکلے عجب سے ایک صحرائے محبت میں
شکاری کے تعاقب میں یہاں آہو نکلتے ہیں

یہ اک منظر بہت ہے عمر بھر حیران رہنے کو
کہ مٹی کے مساموں سے بھی رنگ و بو نکلتے ہیں

ضمیر سنگ تجھ کو تیرا پیکر ساز آ پہنچا
ابھی آنکھیں ابھرتی ہیں ابھی آنسو نکلتے ہیں

کوئی نادر خزینہ ہے مرے دست تصرف میں
جھپٹنے کو در و دیوار سے بازو نکلتے ہیں

میں اپنے دشمنوں کا کس قدر ممنون ہوں انورؔ
کہ ان کے شر سے کیا کیا خیر کے پہلو نکلتے ہیں

میری قسمت کہ وہ اب ہیں مرے غم خواروں میں
کل جو شامل تھے ترے حاشیہ برداروں میں

زہر ایجاد کرو اور یہ پیہم سوچو
زندگی ہے کہ نہیں دوسرے سیاروں میں

کتنے آنسو ہیں کہ پلکوں پہ نہیں آ سکتے
کتنی خبریں ہیں جو چھپتی نہیں اخباروں میں

اب تو دریا کی طبیعت بھی ہے گرداب پسند
اور وہ پہلی سی سکت بھی نہیں پتواروں میں

آپ کے قصر کی جانب کوئی دیکھے توبہ
جرم ثابت ہو تو چن دیجئے دیواروں میں

آج تہذیب کے تیور بھی ہیں کاروں جیسے
دفن ہو جائے نہ کل اپنے ہی انباروں میں

اپنی آواز کو بھی کان ترستے ہیں مرے
جنس گفتار لیے پھرتا ہوں بازاروں میں

تہمتیں حضرت انساں پہ نہ دھرئیے انورؔ
دشمنی ہے کہ چلی آتی ہے تلواروں میں

anwar masood poetry ghazal

سوچنا روح میں کانٹے سے بچھائے رکھنا
یہ بھی کیا سانس کی تلوار بنائے رکھنا

اب تو یہ رسم ہے خوشبو کے قصیدے پڑھنا
پھول گلدان میں کاغذ کے سجائے رکھنا

تیرگی ٹوٹ پڑے بھی تو برا مت کہیو
ہو سکے گر تو چراغوں کو جلائے رکھنا

راہ میں بھیڑ بھی پڑتی ہے ابھی سے سن لو
ہاتھ سے ہاتھ ملا ہے تو ملائے رکھنا

کتنا آسان ہے تائید کی خو کر لینا
کتنا دشوار ہے اپنی کوئی رائے رکھنا

کوئی تخلیق بھی تکمیل نہ پائے مری
نظم لکھ لوں تو مجھے نام نہ آئے رکھنا

اپنی پرچھائیں سے منہ موڑ نہ لینا انورؔ
تم اسے آج بھی باتوں میں لگائے رکھنا

اسے تو پاس خلوص وفا ذرا بھی نہیں
مگر یہ آس کا رشتہ کہ ٹوٹتا بھی نہیں

گھرے ہوئے ہیں خموشی کی برف میں کب سے
کسی کے پاس کوئی تیشۂ صدا بھی نہیں

مآل غنچہ و گل ہے مری نگاہوں میں
مجھے تبسم کاذب کا حوصلہ بھی نہیں

طلوع صبح ازل سے میں ڈھونڈھتا تھا جسے
ملا تو ہے پہ مری سمت دیکھتا بھی نہیں

مری صدا سے بھی رفتار تیز تھی اس کی
مجھے گلہ بھی نہیں ہے جو وہ رکا بھی نہیں

بکھر گئی ہے نگاہوں کی روشنی ورنہ
نظر نہ آئے وہ اتنا تو فاصلہ بھی نہیں

سنا ہے آج کا موضوع مجلس تنقید
وہ شعر ہے کہ ابھی میں نے جو کہا بھی نہیں

سمٹ رہے ہیں ستاروں کے فاصلے انورؔ
پڑوسیوں کو مگر کوئی جانتا بھی نہیں

کیسی کیسی آیتیں مستور ہیں نقطے کے بیچ
کیا گھنے جنگل چھپے بیٹھے ہیں اک دانے کے بیچ

رفتہ رفتہ رخنہ رخنہ ہو گئی مٹی کی گیند
اب خلیجوں کے سوا کیا رہ گیا نقشے کے بیچ

میں تو باہر کے مناظر سے ابھی فارغ نہیں
کیا خبر ہے کون سے اسرار ہیں پردے کے بیچ

اے دل ناداں کسی کا روٹھنا مت یاد کر
آن ٹپکے گا کوئی آنسو بھی اس جھگڑے کے بیچ

سارے اخباروں میں دیکھوں حال اپنے برج کا
اب ملاقات اس سے ہوگی کون سے ہفتے کے بیچ

میں نے انورؔ اس لیے باندھی کلائی پر گھڑی
وقت پوچھیں گے کئی مزدور بھی رستے کے بیچ

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here