dukhi poetry in urdu images
dukhi poetry in urdu images is a type of poetry that talks about pain and suffering. It’s like a cry from the heart, expressing the hurt and struggles we face in life. These poetry are like a shared sorrow, connecting us through our common struggles and helping us heal together. Also, read another sad poetry.
پھر کسی خواب کی بیعت کر لیں
پھر کسی دکھ کی تلاوت ہی سہی
بہت مہین تھا پردہ لرزتی آنکھوں کا
مجھے دکھایا بھی تو نے مجھے چھپایا بھی
dukhi poetry in urdu images
یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور
دکھ مجھ کو ہے اور نیر بہائے گا کوئی اور
جیون کو دکھ دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے
بچے لیکن سوئے ہوئے تھے کس سے کہانی کہتے
وہ تو شاید دونوں کا دکھ اک جیسا تھا ورنہ
ہم بھی پتھر مارتے تجھ کو اور دیوانی کہتے
دور اور پاس کے ستائے ہیں
ہم نے ہجرت کے دکھ اٹھائے ہیں
اپنی مٹی سے دور ہو کر ہی
ہجر کے دکھ سمجھ میں آئے ہیں
سلگتی ریت ہے اور ٹھنڈے پانیوں کا سفر
وہ کون ہے جو ہمیں راستہ دکھاتا ہے
ایک منظر میں لپٹے بدن کے سوا
سرد راتوں میں کچھ اور دکھتا نہیں
تماشا دکھا کے گئی صبح نو
خموشی ہے پھر سے وہی درمیاں
دیتا ہے جدھر ان کو مفاد اپنا دکھائی
ارباب ہوس شوق سے بڑھتے ہیں ادھر تیز
زخم دل ہم دکھا نہیں سکتے
دل کسی کا دکھا نہیں سکتے
ان سے امید وصل اے توبہ
وہ تو صورت دکھا نہیں سکتے
دکھاتی ہے کبھی بھالا کبھی برچھی لگاتی ہے
نگاہ ناز جاناں ہم کو کیا کیا آزماتی ہے
کر دیا حیرت نے مجھ کو آئنہ
بے تکلف منہ دکھایا کیجیے
کس طرح کہئے کہ دیدار دکھایا اس نے
باغ جنت بھی نہیں روز قیامت بھی نہیں
تاب دیدار جو لائے مجھے وہ دل دینا
منہ قیامت میں دکھا سکنے کے قابل دینا
عجیب شہر کا نقشا دکھائی دیتا ہے
جدھر بھی دیکھو اندھیرا دکھائی دیتا ہے
dukhi poetry sms in urdu
نظر نظر کی ہے اور اپنے اپنے ظرف کی بات
مجھے تو قطرے میں دریا دکھائی دیتا ہے
برا کہے جسے دنیا برا نہیں ہوتا
مری نظر میں وہ اچھا دکھائی دیتا ہے
نہیں فریب نظر یہ یہی حقیقت ہے
مجھے تو شہر بھی صحرا دکھائی دیتا ہے
ہیں صرف کہنے کو بجلی کے قمقمے روشن
ہر ایک سمت اندھیرا دکھائی دیتا ہے
عجیب حال ہے سیلاب بن گئے صحرا
جسے بھی دیکھیے پیاسا دکھائی دیتا ہے
دکھائی دیتے نہیں اولاً مرے درویش
کہیں ملیں تو بہ رقصم تماشہ کرتے ہیں
اب کے تو مجھ پہ اس طرح ساقی ہوا ہے مہرباں
سارے دکھوں کو چوم کر مے کا خمار کر دیا
کیا ہے اونچائی محبت کی بتاتے جاؤ
پنچھیوں اڑ کے یوں ہی خواب دکھاتے جاؤ
گاؤں میں ناؤ تھی کاغذ کی سفر آساں تھا
اک مسافر ہوں یہاں راہ دکھاتے جاؤ
محبت کرنے والے درد میں تنہا نہیں ہوتے
جو روٹھو گے کبھی مجھ سے تو اپنا دل دکھاؤ گے
dukhi poetry text
چاند ہاتھوں میں نہیں تو کیا ہوا
آسماں پر ہی سہی دکھتا تو ہے
دکھ پہ میرے رو رہا تھا جو بہت
جاتے جاتے کہہ گیا اچھا ہوا
دل کس سے دکھ بانٹے اپنا کس سے اپنی بات کہے
دل ہی ہے اک جس نے یارو درد مکمل ڈھونا ہے
خزاں کی آفتیں پھرتی ہیں اب تک میری نظروں میں
بہار چند روزہ کیا دکھاتا ہے چمن مجھ کو
ہوا کیسا اثر معصوم ذہنوں پر کہ بچوں کو
اگر پیسے دکھاؤ تو کھلونا چھوڑ دیتے ہیں
ہاتھ پتھر کو بڑھاؤں تو سگان دنیا
حیرتی بن کے دکھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
یہ زندگی ہے یہ تو ہے یہ روزگار کے دکھ
ابھی بتا دے کہاں آزمانا چاہتا ہے
یہ نکتہ کٹتے شجر نے مجھے کیا تعلیم
کہ دکھ تو ملتے ہیں گر خواہش نمو کی جائے
کیوں نہ دنیا کو دکھاؤں میں جلے ہاتھ کا زخم
کچھ چراغوں سے تعلق تھا ادھر سے پہلے
مرے دکھ تک مرے خوں اور پسینے کی کمائی ہیں
تمہیں کیوں میری محنت کا ثمر اچھا نہیں لگتا
زمانوں بعد بھی دشت بلا میں میرا حسینؔ
دکھائی دیتا ہے حجت تمام کرتا ہوا
دل دکھوں کے حصار میں آیا
جبر کب اختیار میں آیا
خرید بیٹھے ہیں دھوکے میں جنس عمر دراز
ہمیں دکھائے تھے مکتب نے کچھ مثال کے دن
یہ خشک قلم بنجر کاغذ دکھلائیں کسے سمجھائیں کیا
ہم فصل نرالی کاٹتے تھے ہم بیج انوکھے بوتے تھے
لفظوں کے صحرا میں کیا معنی کے سراب دکھانا بھی
کوئی سخن سحابی کوئی نغمہ نخلستانہ بھی
بے مصرف بے حاصل دکھ
جینے کے نا قابل دکھ
خواب ستارے پلکوں پر
جھلمل جھلمل جھلمل دکھ
راہ کے سب دکھ جھیل کے جب
منزل آئے تو منزل دکھ
دکھائی دینے کے اور دکھائی نہ دینے کے درمیان سا کچھ
خیال کی لامکانیوں میں ابھر رہا ہے مکان سا کچھ
ادراک کے یہ دکھ یہ عذاب آگہی کے دوست!
کس سے کہیں خطا نگہ خود نگر کی ہے
میں دیکھوں تو دکھا دوں گا تمہیں سازؔ
ابھی مجھ میں بصیرت کی کمی ہے
تصویر کوئی بنتی دکھائی نہیں دیتی
کیا صرفہ عبث ہم نے کیا خون جگر کا
کبھی ہے چاند کا ہالہ نقاب لالہ کبھی
انیلے رنگ دکھاتی ہے زلف غالیہ گوں
کیا کیا نہ گھر جمال کے آباد تھے یہاں
کس دکھ سے شہر ویراں کے آثار بولتے
مٹ گیا شکوے سے لطف انتظار
اب ہمیں وہ راہ دکھلاتا نہیں
لکھا ہے کیا مرے چہرے پہ تو جو شرمایا
زبان سے نہ بتا آئنا ہی دکھلا دے
صدا کسے دیں نعیمیؔ کسے دکھائیں زخم
اب اتنی رات گئے کون جاگتا ہوگا
آپ اپنے میں جلتے بجھتے ہیں
یہ تماشا کہیں دکھاتے نہیں
پربت کے کنارے سے اک راہ نکلتی ہے
دکھلایا بہت مشکل آسان بہت رکھا