75+ best dukhi poetry in urdu images

dukhi poetry in urdu images

dukhi poetry in urdu images is a type of poetry that talks about pain and suffering. It’s like a cry from the heart, expressing the hurt and struggles we face in life. These poetry are like a shared sorrow, connecting us through our common struggles and helping us heal together. Also, read another sad poetry.

dukhi poetry in urdu images

پھر کسی خواب کی بیعت کر لیں
پھر کسی دکھ کی تلاوت ہی سہی

بہت مہین تھا پردہ لرزتی آنکھوں کا
مجھے دکھایا بھی تو نے مجھے چھپایا بھی

dukhi poetry in urdu images

dukhi poetry in urdu images

یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور
دکھ مجھ کو ہے اور نیر بہائے گا کوئی اور

جیون کو دکھ دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے
بچے لیکن سوئے ہوئے تھے کس سے کہانی کہتے

وہ تو شاید دونوں کا دکھ اک جیسا تھا ورنہ
ہم بھی پتھر مارتے تجھ کو اور دیوانی کہتے

دور اور پاس کے ستائے ہیں
ہم نے ہجرت کے دکھ اٹھائے ہیں

اپنی مٹی سے دور ہو کر ہی
ہجر کے دکھ سمجھ میں آئے ہیں

سلگتی ریت ہے اور ٹھنڈے پانیوں کا سفر
وہ کون ہے جو ہمیں راستہ دکھاتا ہے

ایک منظر میں لپٹے بدن کے سوا
سرد راتوں میں کچھ اور دکھتا نہیں

تماشا دکھا کے گئی صبح نو
خموشی ہے پھر سے وہی درمیاں

دیتا ہے جدھر ان کو مفاد اپنا دکھائی
ارباب ہوس شوق سے بڑھتے ہیں ادھر تیز

زخم دل ہم دکھا نہیں سکتے
دل کسی کا دکھا نہیں سکتے

ان سے امید وصل اے توبہ
وہ تو صورت دکھا نہیں سکتے

دکھاتی ہے کبھی بھالا کبھی برچھی لگاتی ہے
نگاہ ناز جاناں ہم کو کیا کیا آزماتی ہے

کر دیا حیرت نے مجھ کو آئنہ
بے تکلف منہ دکھایا کیجیے

کس طرح کہئے کہ دیدار دکھایا اس نے
باغ جنت بھی نہیں روز قیامت بھی نہیں

تاب دیدار جو لائے مجھے وہ دل دینا
منہ قیامت میں دکھا سکنے کے قابل دینا

عجیب شہر کا نقشا دکھائی دیتا ہے
جدھر بھی دیکھو اندھیرا دکھائی دیتا ہے

dukhi poetry sms in urdu

نظر نظر کی ہے اور اپنے اپنے ظرف کی بات
مجھے تو قطرے میں دریا دکھائی دیتا ہے

برا کہے جسے دنیا برا نہیں ہوتا
مری نظر میں وہ اچھا دکھائی دیتا ہے

نہیں فریب نظر یہ یہی حقیقت ہے
مجھے تو شہر بھی صحرا دکھائی دیتا ہے

ہیں صرف کہنے کو بجلی کے قمقمے روشن
ہر ایک سمت اندھیرا دکھائی دیتا ہے

عجیب حال ہے سیلاب بن گئے صحرا
جسے بھی دیکھیے پیاسا دکھائی دیتا ہے

دکھائی دیتے نہیں اولاً مرے درویش
کہیں ملیں تو بہ رقصم تماشہ کرتے ہیں

اب کے تو مجھ پہ اس طرح ساقی ہوا ہے مہرباں
سارے دکھوں کو چوم کر مے کا خمار کر دیا

کیا ہے اونچائی محبت کی بتاتے جاؤ
پنچھیوں اڑ کے یوں ہی خواب دکھاتے جاؤ

گاؤں میں ناؤ تھی کاغذ کی سفر آساں تھا
اک مسافر ہوں یہاں راہ دکھاتے جاؤ

محبت کرنے والے درد میں تنہا نہیں ہوتے
جو روٹھو گے کبھی مجھ سے تو اپنا دل دکھاؤ گے

dukhi poetry text

چاند ہاتھوں میں نہیں تو کیا ہوا
آسماں پر ہی سہی دکھتا تو ہے

دکھ پہ میرے رو رہا تھا جو بہت
جاتے جاتے کہہ گیا اچھا ہوا

دل کس سے دکھ بانٹے اپنا کس سے اپنی بات کہے
دل ہی ہے اک جس نے یارو درد مکمل ڈھونا ہے

خزاں کی آفتیں پھرتی ہیں اب تک میری نظروں میں
بہار چند روزہ کیا دکھاتا ہے چمن مجھ کو

ہوا کیسا اثر معصوم ذہنوں پر کہ بچوں کو
اگر پیسے دکھاؤ تو کھلونا چھوڑ دیتے ہیں

ہاتھ پتھر کو بڑھاؤں تو سگان دنیا
حیرتی بن کے دکھاتے ہیں چلے جاتے ہیں

یہ زندگی ہے یہ تو ہے یہ روزگار کے دکھ
ابھی بتا دے کہاں آزمانا چاہتا ہے

یہ نکتہ کٹتے شجر نے مجھے کیا تعلیم
کہ دکھ تو ملتے ہیں گر خواہش نمو کی جائے

کیوں نہ دنیا کو دکھاؤں میں جلے ہاتھ کا زخم
کچھ چراغوں سے تعلق تھا ادھر سے پہلے

مرے دکھ تک مرے خوں اور پسینے کی کمائی ہیں
تمہیں کیوں میری محنت کا ثمر اچھا نہیں لگتا

زمانوں بعد بھی دشت بلا میں میرا حسینؔ
دکھائی دیتا ہے حجت تمام کرتا ہوا

دل دکھوں کے حصار میں آیا
جبر کب اختیار میں آیا

خرید بیٹھے ہیں دھوکے میں جنس عمر دراز
ہمیں دکھائے تھے مکتب نے کچھ مثال کے دن

یہ خشک قلم بنجر کاغذ دکھلائیں کسے سمجھائیں کیا
ہم فصل نرالی کاٹتے تھے ہم بیج انوکھے بوتے تھے

لفظوں کے صحرا میں کیا معنی کے سراب دکھانا بھی
کوئی سخن سحابی کوئی نغمہ نخلستانہ بھی

بے مصرف بے حاصل دکھ
جینے کے نا قابل دکھ

خواب ستارے پلکوں پر
جھلمل جھلمل جھلمل دکھ

راہ کے سب دکھ جھیل کے جب
منزل آئے تو منزل دکھ

دکھائی دینے کے اور دکھائی نہ دینے کے درمیان سا کچھ
خیال کی لامکانیوں میں ابھر رہا ہے مکان سا کچھ

ادراک کے یہ دکھ یہ عذاب آگہی کے دوست!
کس سے کہیں خطا نگہ خود نگر کی ہے

میں دیکھوں تو دکھا دوں گا تمہیں سازؔ
ابھی مجھ میں بصیرت کی کمی ہے

تصویر کوئی بنتی دکھائی نہیں دیتی
کیا صرفہ عبث ہم نے کیا خون جگر کا

کبھی ہے چاند کا ہالہ نقاب لالہ کبھی
انیلے رنگ دکھاتی ہے زلف غالیہ گوں

کیا کیا نہ گھر جمال کے آباد تھے یہاں
کس دکھ سے شہر ویراں کے آثار بولتے

مٹ گیا شکوے سے لطف انتظار
اب ہمیں وہ راہ دکھلاتا نہیں

لکھا ہے کیا مرے چہرے پہ تو جو شرمایا
زبان سے نہ بتا آئنا ہی دکھلا دے

صدا کسے دیں نعیمیؔ کسے دکھائیں زخم
اب اتنی رات گئے کون جاگتا ہوگا

آپ اپنے میں جلتے بجھتے ہیں
یہ تماشا کہیں دکھاتے نہیں

پربت کے کنارے سے اک راہ نکلتی ہے
دکھلایا بہت مشکل آسان بہت رکھا

Leave a Comment