Best Deedar Poetry in Urdu
Welcome to the world of Deedar poetry in urdu! Here, words express feelings deeply, especially about love and spirituality. Deedar poetry focuses on “seeing” things, but it’s more about feeling connected. Deedar poetry is like a window into the heart. It helps us understand deep feelings and experiences.
Deedar poetry talks a lot about love, devotion, and wanting to be close to someone or something. It uses beautiful language to express these emotions. join us as we navigate the rich Deedar poetry, where every word resonates with the timelessness of the human soul. Also read another amazing poetry.
ہو گیا جیسے ترا دیدار پہلا آخری
ہو بھی سکتا ہے کسی کا پیار پہلا آخری
نزع تک دیدار کی حسرت رہی مشتاق کو
اے مسیحا مر گیا بیمار شربت مانگتا
کس طرح کہئے کہ دیدار دکھایا اس نے
باغ جنت بھی نہیں روز قیامت بھی نہیں
best deedar poetry in urdu
وہاں بھی وعدۂ دیدار اس طرح ٹالا
کہ خاص لوگ طلب ہوں گے بار عام کے بعد
تاب دیدار جو لائے مجھے وہ دل دینا
منہ قیامت میں دکھا سکنے کے قابل دینا
مجھ کو ہنگامۂ محشر سے غرض
بس تمنا ترے دیدار کی ہے
وفور شوق میرا مانع دیدار تھا ورنہ
جھلک تھی خود نمائی کی صدائے لن ترانی میں
ہو رہا ہے مجھے تکمیل محبت کا گماں
عشق اب حسن کے دیدار سے کتراتا ہے
کوچہ سے ترے کوچ ہے اے یار ہمارا
جی لے ہی چلی حسرت دیدار ہمارا
فقط اک دید کو نادیدہ دل اور دیدہ ہے اپنا
تو اے بے دید دکھلاتا نہیں دیدار کیا باعث
وقت دیدار عجب حکم ہوا
ہوش کھونے کی اجازت نہ رہی
مبارک نام تیرے آبروؔ کا کیوں نہ ہو جگ میں
اثر ہے یو ترے دیدار کی فرخندہ فالی کا
خوشی کی بات ہے نکلی تو حسرت دیدار
کرم نواز کو سب کچھ لٹا کے دیکھ لیا
یہ چاند رات ہی دیدار کا وسیلہ ہے
بروز عید ہی وہ خوبرو نکلتا ہے
یہ اچھی ابتدا کی آپ نے اے حضرت موسیٰ
دم دیدار اب لازم ہوا بے ہوش ہو جانا
deedar e yaar shayari 2 lines
اسی کو کامیاب دید کہتے ہیں نظر والے
وہ عاشق جو ہلاک حسرت دیدار ہو جائے
جیتے جی دیدار جاناں تھا محال
زندگی میں مجھ کو مر جانا پڑا
نظر آ جائے گا دنیا کو برق و طور کا عالم
دم دیدار بے خود مجھ کو زیر بام ہونے دو
اسی نظر سے ہے نور نگاہ مد نظر
مجھے حبیب کا دیدار تاکہ حاصل ہو
میں تیرے دیدار کی خاطر آ جاتا ہوں خوابوں تک
ورنہ اس لذت کے علاوہ نیندوں میں کیا رکھا ہے
دیدار کا لگا کے میں آیا ہوں آسرا
امیدوار ہوں مجھے مایوس کر نہیں
لن ترانی کی جو تاکید ہے اے دل یہ کھلا
باب دیدار میں منظور نظر کچھ بھی نہیں
ترسا کیا میں دولت دیدار کے لیے
قسمت نے جو سلوک کیا کچھ نہ پوچھئے
romantic deedar poetry
اب مری آنکھوں کو ہوگا ولولہ دیدار کا
حسرت ان میں آ چکی ہے انتظار آنے کو ہے
دیدار کے بھوکے تیرے جو ہیں ہے ختم انہیں پر نفس کشی
کچھ خواہش و فکر فوت نہیں دنیا کے مزے سے کام نہیں
بیتابی و زاری پر میری انہیں رحم آیا
دکھلا ہی دیا مجھ کو دیدار جو میں رویا
deedar e yaar poetry in urdu text
جگر دل کے ورق ہیں وعدۂ دیدار سے روشن
انہیں کیوں دوں کسی کو یہ تو جنت کے قبالے ہیں
کس طرح تجھ سے کہیں کتنا بھلا لگتا ہے
تجھ کو دیکھیں ترے دیدار میں گم ہو جائیں
ہر طرف جلوہ نمائی تھی اسی کی مسعودؔ
تم رہے پھر بھی یہاں تشنۂ دیدار میاں
میں نے بھیجا تجھے ایوان حکومت میں مگر
اب تو برسوں ترا دیدار نہیں ہو سکتا
ہم کہاں اے دل کہاں دیدار یار
ہو گیا تیری بدولت دیکھنا
وہ تو موسیٰ ہوا جو طالب دیدار ہوا
پھر وہ کیا ہوگا کہ جس نے تمہیں دیکھا ہوگا
اندھے شہر کے سب آئینے اندھے ہیں
ایسے میں خود اپنا بھی دیدار کہاں
ہجر دیدار بھی محرومیٔ دیدار بھی ہجر
جو کبھی ختم نہ ہو ایسا سفر ہے کوئی
ہجر کی راہوں سے اکبرؔ منزل دیدار تک
یوں ہے جیسے درمیاں اک روشنی کا سال ہے
لذت ہجر کبھی عشرت دیدار کبھی
آرزو نے بھی طبیعت کو دیئے دم کیا کیا
جو کسی اور کے جلووں کا تمنائی ہو
وہ کبھی بھی ترا دیدار نہیں کر سکتا
میں تشنۂ دیدار کہ جھونکا ہوں ہوا کا
وہ جھیل میں اترے ہوئے منظر کی طرح ہے
ہر سو ہے کائنات میں اپنے لہو کا رنگ
ہو چشم دل سے دور تو دیدار کیا کرے
ہجر کے سوختہ جاں اور جلیں گے کتنے
طور پر بیٹھے ہیں کب سے ترا دیدار تو ہو
دلوں میں خواہش دیدار ہو تو لازم ہے
جو آئنہ بھی میسر ہو اس کو صاف کرے
سر برگ تمنا مرہم دیدار کہہ جائیں
نہ آئیں سامنے میرے نگہ داری کے موسم میں
محشر انوار کر دیں بزم کو
جلوۂ دیدار کی باتیں کریں
دیدار کی تمنا کل رات رکھ رہی تھی
خوابوں کی رہگزر میں شمعیں جلا جلا کے
شمع کا مے کا شفق زار کا گلزار کا رنگ
سب ہیں اور سب سے جدا ہے لب دیدار کا رنگ
نہیں ہے علیمؔ کو سچ تقویٰ عمل پہ اپنے
دیدار کا صنم کے کافی ہے استقامت
کیں ہوا انس کیں ہوا ہے ملک
کیں ہوا دید کیں ہوا دیدار
کھنچے خود بخود جانب طور موسیٰ
کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
علم کی حد سے پرے بندۂ مومن کے لیے
لذت شوق بھی ہے نعمت دیدار بھی ہے
نہیں آب بقا جز جلوۂ دوست
کسی لب تشنۂ دیدار سے پوچھ
اب وہ دیدار میسر ہے نہ قربت نہ سخن
اک جدائی ہے جو تقدیر ہوئی جاتی ہے
لا سکوگے نہ ذرا جلوۂ دیدار کی تاب
ارنی منہ سے نہ اے حضرت موسیٰ کہنا
تشنگان شوق ہیں شیریں لبوں کے میہماں
بٹ رہا ہے شربت دیدار قیصر باغ میں
طور تو برق تجلی سے ہوا خاکستر
اور میں سوختۂ حسرت دیدار رہا
اب وہ فردا بھی نہیں روز کی تسکیں کے لیے
اب فقط حشر ہی پر وعدۂ دیدار رہا
ملتی ہے آخیر کو کچھ کیفیت سوز و گداز
صاعقہ حصہ ہے پہلا طالب دیدار کا
اس کا دیدار ہمہ وقت عبادت میری
آنکھ نے دل پہ جو تصویر اتاری تیری
بعد کوشش بھی نہ دیدار کی صورت نکلی
چاند بدلی سے کسی اور بہانے نکلا
دل کا آزار کم نہیں ہوتا
شوق دیدار کم نہیں ہوتا
مانع دولت دیدار نہ ہو اے گریہ
رخ محبوب کا کرنے دے نظارا مجھ کو
آج ہوتی ہے قلقؔ قطع امید دیدار
نگراں اس لیے سوئے رخ جلاد ہیں ہم
بیٹھا ہے کب سے منتظر یاں پر نگاہ مہر
دیکھ آنکھ اٹھا کے طالب دیدار کی طرف
کہیں ہو اچھی صورت دیکھ لوں دیدار نظروں سے
مری آنکھوں کو چوروں کی طرح لپکا ہے چوری کا
لٹ رہی ہے دولت دیدار قیصر باغ میں
مثل گل سب ہو گئے زردار قیصر باغ میں
ہے نور حسن مانع دیدار روۓ یار
آنکھیں یہ کہہ رہی ہیں اسے بار بار دیکھ
تو مشتاقوں سے اپنے چشم پوشی روز کرتا ہے
ترے دیدار کی دولت بھی قاروں کا خزانہ ہے
کہاں گئی اب وہ لن ترانی نہ تاب جلوے کی لائے عاشق
ہنوز کھولا تھا بہر دیدار اس نے بند نقاب آدھا
رخ سے اپنے جو نقاب اس نے اٹھایا تو کیا
پردۂ شرم و حیا مانع دیدار رہا
میری نظر بھی طالب دیدار ہیر ہے
ملنا پڑے گا جسم پہ مجھ کو بھبوت کیا