Breakup Poetry in Urdu
Hey there! Have you ever been through a breakup poetry in urdu? It can be really tough. But imagine expressing those feelings using beautiful words in Urdu, a language known for its beauty. That’s what Urdu breakup poetry is all about.
In this blog, we’re going to explore breakup poetry in Urdu. We’ll talk about famous poets like Mirza Ghalib and Faiz Ahmed Faiz, who wrote about love and sadness in such a touching way.So, let’s start this journey together and see how these poets express the feelings we all know so well.Also read another amazing urdu poetry:
کسی سے روٹھ گئے یا کسی کا دل توڑا
جبیں پہ آ گیا کیوں آپ کی عرق پھر سے
دل دکھایا نہ کسی شخص کا دل توڑا ہے
میرے ہم راہ یہی زاد سفر جائے گا
ہاں ہم نے بھی آج کسی کا نازک سا دل توڑا ہے
شہر وفا کی رسم یہی ہے ہم اس پر شرمائیں کیوں
قید تو نے کیا گلچیں نے مرا دل توڑا
اس پہ کہتا ہے کہ فریاد نہ کر اے صیاد
کیسا نادان ہے تو جب مرا دل توڑا تھا
یہ نہ سوچا کہ تجھے یاد کرے گا کیسے
مسکان لبوں پر آنکھوں میں تاروں کا سجانا مشکل ہے
دل توڑنا ہے آساں لیکن روتے کو ہنسانا مشکل ہے
کریں کیا رند مشرب اختیار اک مذہب اے واعظ
نہیں دل توڑنا منظور ہفتاد و دو ملت کا
تم اس کی بے رخی پہ پریشاں ہو کس لیے
دل توڑنا تو اس کا سدا مشغلہ رہا
مجھے دشمن کا بھی دل توڑنا اچھا نہیں لگتا
کسی کی بد دعاؤں کا اثر ہونے سے ڈرتی ہوں
breakup poetry in urdu
کیوں اہل ستم کا دل توڑیں پھر شہر میں چل کر سر پھوڑیں
صحرائے جنوں کو اب چھوڑیں دیوار نہیں تو کچھ بھی نہیں
تو خدا کے لئے میرا دل توڑ دے
روز کا یہ بہانا ضروری نہیں
کچھ علاج ان کا بھی سوچا تم نے اے چارہ گرو
وہ جو دل توڑے گئے ہیں دلبری کے نام پر
خط لکھا کرتے ہیں اب وہ یک قلم مجھ کو شکست
پیچ سے دل توڑتے ہیں عاشق ناشاد کا
عبث دل توڑ کر یاد بتاں میں محو ہو اتنا
خدا کے گھر کو ڈھا کر بت کدہ تعمیر کرتے ہو
یہ کہہ کر تو منزل نے دل توڑ ڈالا
جہاں سے چلا تھا وہی مرحلہ ہوں
مرا دل توڑنے والے کبھی سوچا ہے یہ تو نے
ترا ہی نام آئے گا سزا کی داستانوں میں
تم اس کی بے رخی پہ پریشاں ہو کس لیے
دل توڑنا تو اس کا سدا مشغلہ رہا
خوف ناکامئ امید ہے فیضؔ
ورنہ دل توڑ دے طلسم مجاز
کتنے دل توڑ چکا ہوں اسی بے ہنری سے
جال میں پھنس کے نکلنا نہیں آتا ہے مجھے
دل توڑنے کا کھیل نہیں تم پہ ہی تمام
ہم بھی چکائیں گے یہ ادھاری حساب سے
breakup poetry in urdu 2 lines
او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا
اب میں دل کو کیا سمجھاؤں مجھ کو بھی سمجھاتا جا
چشم مست اس کی نے دل توڑ کے پھیری ہے نظر
کہ نہ مانگے کہیں اس شیشہ کا تاواں مجھ سے
اک روز اسے ٹوٹ ہی جانا تھا بہرحال
دل توڑ کے تو کیوں کف افسوس ملے ہے
کیا کہوں دل توڑتے ہیں کس لیے
آرزو شاید نکالی جائے گی
کیا ملنا جلنا آپس میں یہ سب کہنے کی باتیں ہیں
ہم دیکھ چکے اس دور نے تو دل توڑ دیے سر جوڑ دیے
ہاں ہم نے بھی آج کسی کا نازک سا دل توڑا ہے
شہر وفا کی رسم یہی ہے ہم اس پر شرمائیں کیوں
سب بزرگوں کے تبسم کو دکھاوا کہئے
ورنہ یہ سچ ہے کہ دل توڑ دیا بچوں نے
دل توڑنے والے کو خبر ہو کہ ابھی میں
سر تا بہ قدم اک دل بیمار نہیں ہوں
دل توڑ کر وہ نشہ میں کہتے ہیں ناز سے
کس کام کا رہا ہے یہ ٹوٹا گلاس ہے
طوفان کا شیوہ تو ہے کشتی کو ڈبونا
خاموش کناروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
اس ڈوبتے سورج سے تو امید ہی کیا تھی
ہنس ہنس کے ستاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
مانا کہ تھی غمگین کلی خوف خزاں سے
چپ رہ کے بہاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
اغیار کا شکوہ نہیں اس عہد ہوس میں
اک عمر کے یاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
اک مسلمان کا دل توڑ دیا کیا کہنا
اپنے نزدیک بڑا آپ نے کافر مارا
تم کعبے کو ڈھاؤ گے یہ معلوم نہیں تھا
دل توڑ کے جاؤ گے یہ معلوم نہیں تھا
اس نے دل توڑ کر کیا ارشاد
اب تسلی ہے عمر بھر کے لئے
مجھے دشمن کا بھی دل توڑنا اچھا نہیں لگتا
کسی کی بد دعاؤں کا اثر ہونے سے ڈرتی ہوں
دل توڑ دیا تم نے میرا اب جوڑ چکے تم ٹوٹے کو
وہ کام نہایت آساں تھا یہ کام بلا کا مشکل ہے
دل توڑ کے خموش نظاروں کا کیا ملا
شبنم کا یہ سوال ہے اور چاند رات ہے
اے صباؔ کیوں کسی کا دل توڑیں
کعبے کا احترام کرتے ہیں
مدت ہوئی اک شخص نے دل توڑ دیا تھا
اس واسطے اپنوں سے محبت نہیں کرتے
breakup poetry in urdu text
ایک ہی اپنا ملنے والا تھا
ایسا بچھڑا کے پھر ملا ہی نہیں
تمہارے ہجر نے حالت بگاڑ دی میری
میں اپنے شہر کا سب سے حسین لڑکا تھا
رنج کیا تیرے بچھڑنے پہ تو حیرت بھی نہیں
میں نے امکان سبھی پیشِ نظر رکھے تھے
تیرا بچھڑنا آنکھوں سے عیاں ہوتا ہے
درد جتنا بھی بڑھ جائے بے زباں ہوتا ہے
فریاد کر رہی ہے ترسی ہوئی نگاہ۔
دیکھے ہوئے کسی کو بہت دن گزر گئے۔
مجھے بے جان سا کر گیا
صدمہ تیرے بچھڑ جانے کا
کاش کے وہ پل پھر لوٹ آۓ میری ذندگی میں
جس پل اس نے کہا تھا کے ھم جدا نہیں ہوں گے
تیرے بغیر بھی جی رہے ہیں لیکن
سزائے موت کے مایوس قیدیوں کی طرح
وہ میرے سامنے ہی گیا اور میں
راستے کی طرح دیکھتا رہ گیا
جانے والے کبھی لوٹا نہیں کرتے
اپنی آنکھوں کو دہلیز کا نگران نہ بنا
مرے بغیر بھی اب دن گزر رہے ہیں ترے
یقین کر تیری ہمت کی داد بنتی ہے
لاؤں گا کہاں سے میں جدائی کا حوصلہ
کیوں اس قدر قریب آ گئے ہو تم
سبب رونے کا وہ پوچھیں تو اتنا کہنا قاصد۔
مجھے ہنسنا نہیی آتا جہاں پہ تم نہیی۔
اتنے برسوں کی جدائی ہے کہ اب
تم کو دیکھیں گے تو مر جائیں گے
یہ تیری جدائی کی یادگار ہے ورنہ
ایک زخم بھرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
یہ جدائی بھی محبت کا امتحان ہوتی ہے
کوئی ہنستا ہے اپنی اداؤں پہ کوئی روتا ہے اپنی وفاؤں پہ
بچھڑ کے وہ روز ملتا ہے مجھے خواب نگر میں
اگر یہ نیند بھی نہ ہوتی تو ہم تو مر گئے ہوتے
خاموشی سےادا ہوئی رسم جدائی
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
ہمارا حق تو نہیں پر ہم پھر بھی تم سے یہ کہتے ہیں
ارے زندگی لے لو پر ہم سے دور نہ جاؤ
ان فاصلوں کو دوریا نہ سمجھو میری جان
ڈر تو بس دلوں کے فاصلے سے لگتا ہے
نا رویا تھا بچھڑنے پر میں ان کے
مگر ہاں زندگی بھر پھر ہنسا نہیں
breakup sad poetry gazal
درد آ کے بڑھا دو دل کا تم یہ کام تمہیں کیا مشکل ہے
بیمار بنانا آساں ہے ہر چند مداوا مشکل ہے
الزام نہ دیں گے ہم تم کو تسکین میں کوئی کی نہ کمی
وعدہ تو وفا کا تم نے کیا کیا کیجئے ایفا مشکل ہے
دل توڑ دیا تم نے میرا اب جوڑ چکے تم ٹوٹے کو
وہ کام نہایت آساں تھا یہ کام بلا کا مشکل ہے
آغاز سے ظاہر ہوتا ہے انجام جو ہونے والا ہے
انداز زمانہ کہتا ہے پوری ہو تمنا مشکل ہے
موقوف کرو اب فکر سخن وحشتؔ نہ کرو اب ذکر سخن
جو کام کہ بے حاصل ٹھہرا دل اس میں لگانا مشکل ہے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
سر بزم طلب رقص شرر ہونے سے ڈرتی ہوں
کہ میں خود پر محبت کی نظر ہونے سے ڈرتی ہوں
بچانا چاہتی ہوں اس کو سورج کی تمازت سے
مگر میں اس کے رستے کا شجر ہونے سے ڈرتی ہوں
کبھی اس کے خیالوں میں نہیں جاتی تھی دریا پر
اور اب یہ وقت آیا ہے کہ گھر ہونے سے ڈرتی ہوں
اگر یہ سچ ہے خوشبو اور محبت چھپ نہیں سکتے
تو کیوں اپنی محبت کی خبر ہونے سے ڈرتی ہوں
میں اپنی ذات میں بھیگے پروں کا بوجھ ہوں شاید
کسی بے بال و پر کے بال و پر ہونے سے ڈرتی ہوں
مجھے دشمن کا بھی دل توڑنا اچھا نہیں لگتا
کسی کی بد دعاؤں کا اثر ہونے سے ڈرتی ہوں
بھلا تشبیہ سے رتبہ مرا کیوں کم کرے کوئی
قمرؔ ہوں اس لیے رشک قمر ہونے سے ڈرتی ہوں
ریحانہ قمر