Best Islamic story in Urdu
This Islamic Story in Urdu will help boost your blessing energy and blessing your life with this Islamic Story in Urdu.So lets get statred Lesson from this Islamic story in Urdu.Also read another Islamic poetry post.
ایک روٹی کی برکت
حضرت سیدنا ابو بردہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:”جب حضرت سید نا ابو موسیٰ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے تمام بیٹوں کو اپنے پاس بلاکر فرمایا:” میں تمہیں صاحب الرغیف (یعنی روٹی والے) کا قصہ سناتا ہوں ، اسے ہمیشہ یاد رکھنا،
پھرفرمایا:”ایک عابد شخص اپنی جھو نپڑی میں لوگو ں سے الگ تھلگ عبادت کیاکرتا تھا ۔ وہ ستر سال تک اسی جھونپڑی میں رہا ،اس عرصہ میں کبھی بھی اس نے عبادت کو ترک نہ کیا اور نہ ہی کبھی اپنی جھونپڑی سے باہر آیا۔پھر ایک دن وہ جھونپڑی سے باہر آیا تو اسے شیطان نے ایک عورت کے فتنے میں مبتلا کردیا، اور وہ سات دن یا سات راتیں اسی عورت کے ساتھ رہا، سات دن کے بعد جب اس کی آنکھوں سے غفلت کا پردہ ہٹا تو وہ اپنی اس حرکت پر بہت نادم ہوا، اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تو بہ کی، اور وہاں سے رخصت ہوگیا ۔ وہ اپنے اس فعل پر بہت نادم تھا ،اب اس کی یہ حالت تھی کہ ہر ہر قدم پر نما ز پڑھتا اور تو بہ کرتا۔ پھر ایک رات وہ ایسی جگہ پہنچا جہاں بارہ مسکین رہتے تھے ۔ وہ بہت زیادہ تھکا ہوا تھا، تھکاوٹ کی وجہ سے وہ ان مسکینوں کے قریب گر پڑا ۔
ایک راہب روزانہ ان بارہ مسکینوں کو ایک ایک روٹی دیتا تھا ۔ جب وہ راہب آیا تو اس نے رو ٹی دینا شروع کی اور اس عا بد کو بھی مسکین سمجھ کر ایک روٹی دے دی ،اوران بارہ مسکینوں میں سے ایک کو روٹی نہ ملی تو اس نے راہب سے کہا : ”آج آپ نے مجھے روٹی کیوں نہیں دی؟” راہب نے جب یہ سنا تو کہا:”میں تو بارہ کی بارہ روٹیاں تقسیم کر چکاہوں ۔”پھر اس نے مسکینوں سے مخاطب ہو کر کہا: ”کیا تم میں سے کسی کو دو روٹیاں ملی ہیں؟” سب نے کہا :”نہیں ہمیں توصرف ایک ایک ہی ملی ہے ۔ ‘ ‘
یہ سن کر راہب نے اس شخص سے کہا : ”شاید تم دوبارہ روٹی لینا چاہتے ہو،جاؤ آج کے بعد تمہیں روٹی نہیں ملے گی۔”
جب اس عابد نے یہ سنا تو اسے اس مسکین پر بڑا ترس آیا چنانچہ اس نے وہ روٹی مسکین کو دے دی اور خود بھوکار ہا اور اسی بھوک کی حالت میں اس کا انتقال ہوگیا ۔
جب اس کی ستر سالہ عبادت اور غفلت میں گزری ہوئی سات راتوں کا وزن کیا گیا ،تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں گزاری ہوئیں راتیں اس کی ستر سالہ عبادت پر غالب آگئیں۔ پھرجب ان سات راتوں کا موازنہ اس روٹی سے کیا گیا جو اس نے مسکین کو دی تھی تو وہ روٹی ان راتوں پر غالب آگئی اور اس کی مغفرت کردی گئی۔
حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہی حکایت اس طرح مروی ہے: ”ایک عابد نے ستر سال تک اللہ عزوجل کی عبادت کی ، پھر اس نے ایک فاحشہ عورت سے گناہ کیا۔ تو اللہ عزوجل نے اس کے تمام اعمال ضائع کردیئے،(پھرجب اسے اپنے گناہ
کا احساس ہوا تو وہ تا ئب ہو گیا)کچھ دنوں کے بعد اسے ایسی بیماری لا حق ہوئی کہ وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا ۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ ایک شخص روٹیاں تقسیم کر رہا ہے گرتے پڑتے یہ بھی وہاں پہنچا اور اس نے بھی ایک روٹی حاصل کرلی۔ ابھی اس نے روٹی کھانا شرو ع بھی نہ کی تھی کہ اسے ایک مسکین نظرآیا ،چنانچہ اس نے وہ روٹی مسکین کو دے دی اور خود بھو کا ہی رہا۔ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اس کا یہ عمل ایسا مقبول ہوا کہ اس کی مغفرت کردی گئی اور اسے ستر سالہ عبادت کا ثواب بھی لوٹا دیا گیا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
Islamic story in Urdu
تلاوتِ قرآن کریم کی چاشنی
حضرت سیدنا صالح مر ی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں، ایک مرتبہ حضرت سیدنامالک بن دینار علیہ رحمۃاللہ الغفار میرے پاس آئے اور فرمانے لگے:” کل صبح فلاں جگہ پہنچ جانا، میرے کچھ اور دوست بھی وہاں پہنچ جائیں گے، پھر ہم حضرت سیدنا ابو جہیزرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہسے ملاقات کے لئے چلیں گے۔” میں نے کہا:” ٹھیک ہے ،میں مقررہ وقت پر وہاں پہنچ جاؤں گا۔” جب میں صبح اس جگہ پہنچا جہاں کا مجھے کہا گیا تھا تو حضرت سیدنامالک بن دینار علیہ رحمۃاللہ الغفار مجھ سے پہلے ہی وہاں موجود تھے اور ان کے ساتھ حضرت سیدنا محمد بن واسع ، حضرت سیدنا ثابت بنائی اور حضرت سیدنا حبیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم بھی موجود تھے۔ میں نے ان سب کو ایک ساتھ دیکھ کر دل میں کہا :”اللہ عزوجل کی قسم! آج کا دن بہت خوش کن ہوگا۔” پھر ہم سب حضرت سیدنا ابو جہیزرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف چل دیئے۔ حضرت سیدنا ابو جہیزرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے گھر میں عبادت کے لئے ایک جگہ مخصوص کر رکھی تھی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ” بصرہ شہر” میں صرف نمازِ جمعہ کے لئے تشریف لاتے اور نماز کے بعد فوراً ہی واپس تشریف لے جاتے ۔
حضرت سیدنا صالح مری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہفرماتے ہیں:” ہم ایک انتہائی خوبصورت جگہ سے گزرے تو حضرت سیدنا مالک بن دینارعلیہ رحمۃ اللہ الغفارنے فرمایا: ”اے ثابت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ !اس جگہ نماز پڑھ لو، کل بر وزِ قیامت یہ جگہ تمہاری گواہی دے گی۔” پھر ہم حضرت سیدنا ابو جہیزرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے گھر پہنچے اور ان کے متعلق پوچھا تو پتاچلا کہ وہ نماز پڑھنے گئے ہیں ، ہم ان کا انتظار کرنے لگے ،کچھ ہی دیر بعد حضرت سیدنا ابو جہیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تشریف لائے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نہایت غمزدہ ،پر یشان حال اور بہت کمزور تھے، ایسا لگتاتھا جیسے ابھی قبر سے نکل کر آرہے ہوں ۔ پھر انہوں نے مختصر سی نماز پڑھی اور نہایت غمگین حالت میں ایک جگہ بیٹھ گئے۔ ان سے مصافحہ کرنے کے لئے سب سے پہلے حضرت سیدنا محمد بن واسع رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ گئے اور انہوں نے سلام کیا ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواب دیا اور پوچھا:” تم کون ہو؟ میں تمہاری آواز نہیں پہچان پایا۔”حضرت سیدنا محمد بن واسع رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے عرض کی :” میں بصرہ سے آیا ہوں۔” پوچھا:” تمہارا نام کیا ہے؟”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواب دیا:” میرا نام محمد بن واسع ہے ۔” یہ سن کر فرمانے لگے:” مرحبا ،مرحبا! کیاتم ہی محمد بن واسع ہو جن کے متعلق بصرہ والے یہ کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ فضیلت والے یہی ہیں ،خوش آمدید بیٹھ جائیے۔” پھر حضرت سیدنا ثابت بنائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سلام کیا، ان سے بھی نام پوچھا تو انہوں نے بتایا: ” میرانام ثابت بنائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہے۔” یہ سن کر فرمانے لگے:” مرحبا، اے ثابت !کیا تمہار ے ہی متعلق لوگوں میں مشہور ہے کہ سب سے زیاد ہ لمبی نماز پڑھنے والے ثابت بنائی ہیں ،خوش آمدید! آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) تشریف رکھیں ۔”
پھر حضرت سیدنا حبیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سلام کے لئے حاضر ہوئے۔ ان سے پوچھا:” تمہارا نام کیا ہے؟” عرض کی:
”حبیب ۔”فرمایا:” کیا تم ہی وہ حبیب ہو جن کے متعلق مشہور ہے کہ اللہ عزوجل کے سوا کبھی کسی سے کوئی سوال نہیں کرتے ، خوش آمدید! تشریف رکھئے ۔”پھر حضرت سیدنا مالک بن دینار علیہ رحمۃاللہ الغفار نے سلام کیا اور جب اپنا نام بتایا تو فرمایا:”مرحبا !مرحبا! اے مالک بن دینار علیہ رحمۃاللہ الغفار! تمہارے ہی متعلق مشہور ہے کہ تم سب سے زیادہ مجاہد ہ کرنے والے ہو۔” پھر انہیں بھی اپنے پاس بٹھا لیا۔
پھر میں سلام کے لئے حاضر ہوا ۔جب میرا نام پوچھاتو میں نے اپنا نام بتا یا، فرمانے لگے:” اچھا! تمہارے ہی متعلق مشہور ہے کہ تم قرآن بہت اچھا پڑھتے ہو ، میری بڑی خواہش تھی کہ تم سے قرآن سنوں: آج مجھے قرآن سناؤ ۔” حکم ملتے ہی میں نے تلاوت شروع کردی۔ خدا عزوجل کی قسم! ابھی میں تَعَوُّذْ(یعنی اَعُوْذُبِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم) بھی مکمل نہ کر پایا تھا کہ وہ بے ہوش ہو گئے۔ جب افاقہ ہوا تو فرمانے لگے:” اے صالح (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)!مجھے قرآن سناؤ۔ ”چنانچہ میں نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت کی:
وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰی مَا عَمِلُوۡا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰہُ ہَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا ﴿23﴾
ترجمہ کنزالایمان:اور جو کچھ انہوں نے کام کئے تھے ہم نے قصد فرما کر انہیں باریک باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذرے کردیا کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں۔(پ19،الفرقان:23)
جیسے ہی انہوں نے یہ آیت سنی ایک چیخ ماری اور پھر ان کے گلے سے عجیب وغریب آواز آنے لگی اور تڑپنے لگے پھر یکدم ساکت ہوگئے۔ ہم ان کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ان کی روح قفس عنصری سے پر وا ز کر چکی تھی ، ہم نے لوگو ں سے پوچھا : ”کیا ان کے گھر والوں میں سے کوئی موجود ہے؟” لوگو ں نے بتایا:” ایک بوڑھی عورت ان کی خدمت کرتی ہے۔” جب اس بوڑھی عورت کو بلایا گیا تو اس نے پوچھا:” کس طرح ان کا انتقال ہوا؟” ہم نے بتایا:” ان کے سامنے قرآن کی ایک آیت پڑھی گئی جسے سنتے ہی ان کی روح پرواز کر گئی۔”
اُس عورت نے پوچھا:” تلاوت کس نے کی تھی ؟شاید! حضرت سیدنا صالح قاری علیہ رحمۃاللہ الباری نے تلاوت کی ہو گی۔” ہم نے کہا:” جی ہاں! تلاوت تو حضرت صالح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی نے کی ہے لیکن تم انہیں کس طر ح جانتی ہو ؟”کہنے لگی: ”میں انہیں جانتی تو نہیں مگر حضرت سیدنا ابو جہیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر میرے سامنے حضرت سیدنا صالح قاری علیہ رحمۃاللہ الباری نے تلاوت کی تو میں ان کی تلاوت سنتے ہی مرجاؤں گا ۔”
پھر اس عورت نے کہا:” خدا عزوجل کی قسم! حضرت صالح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (کی پردرد آواز)نے ہمارے حبیب کو قتل کرڈالا ۔” یہ کہہ کر وہ عورت رونے لگی۔ پھرہم سب نے مل کرحضرت سیدنا ابو جہیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تجہیز وتکفین کی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)