bebasi shayari in urdu

bebasi shayari in urdu, which means poetry about helplessness, is a touching part of Urdu literature. This poetry captures deep feelings and moments of vulnerability. Let’s explore Bebasi Shayari and the moving emotions it conveys.Also read another amazing poetry.

bebasi shayari in urdu

چاندنی رات میں اندھیرا تھا
اس طرح بے بسی نے گھیرا تھا

bebasi shayari in urdu

ان کے ستم بھی کہہ نہیں سکتے کسی سے ہم
گھٹ گھٹ کے مر رہے ہیں عجب بے بسی سے ہم

shayari in urdu

وہی درد ہے وہی بے بسی ترے گاؤں میں مرے شہر میں
بے غموں کی بھیڑ میں آدمی ترے گاؤں میں مرے شہر میں

bebasi shayari in urdu

bebasi shayari in urdu

کوئی الزام جلووں پہ آیا نہیں
بے بسی آنکھ کی مشتہر ہو گئی

تشنگی بے بسی لب دریا
میری پہچان ہی وہاں سے ہوئی

یہ بے بسی تو مرے عہد کا مقدر تھی
دلوں کو داغ تمنا بھی مستعار ملے

جو نظر بچا کے گزر گئے تو نہ آ سکو گے پلٹ کے تم
بڑی محترم ہے یہ بے بسی کہ خلوص جاں کا لبادہ ہے

بے بسی کی دھوپ ہے غمگین کیا
پھر رہا ہے در بدر مسکین کیا

ہنس رہا ہوں بے بسی کی دھوپ میں
ہو رہی ہے ذوق کی تسکین کیا

فنا ہونا اندھیری رات کی تقدیر ہے عالمؔ
مجھے یہ بے بسی بھی زندگی معلوم ہوتی ہے

پوچھتا ہوں سب سے افضل کوئی بتلاتا نہیں
بے بسی کی موت مرتے ہیں سخن ور کس لیے

بے بسی ایسی بھی ہوتی ہے بھلا
زندگی ایسی بھی ہوتی ہے بھلا

بے بسی بھی کبھی قربت کا سبب بنتی ہے
رو نہ پائیں تو گلے یار سے لگ جاتے ہیں

کب سے خالی ہاتھ ہے یاں ایک خلقت عشق کی
ہم بھی ہو جائیں گے ایک دن بے بسی سے ماورا

bebasi quotes in urdu

یہ کس مقام پہ لے آئی زندگی راہیؔ
قدم قدم پہ جہاں بے بسی کا عالم ہے

کوئی سبیل کہ یہ سحر جاں گسل ٹوٹے
کوئی علاج کہ یہ دور بے بسی جائے

یہ کس مقام پہ لے آئی زندگی راہیؔ
کہ ہر قدم پہ عجب بے بسی کا عالم ہے

میں اپنے آپ سے پیچھا نہیں چھڑا پایا
مرا وجود مری بے بسی کا حاصل ہے

یہ محرومی تو اپنی بے بسی ہی کی مکافی ہے
صلہ کچھ اور ہونا چاہیے تھا ناصبوری کا

کب تک رہے گی بے بسی ارباب-اختیار
ہم نے بھی یہ سوال اٹھایا تھا ان دنوں

دیکھی گئی نہ مجھ سے جو طوفاں کی بے بسی
کشتی کو اپنی آپ ڈبونا پڑا مجھے

بدن کی ساری تمازتیں ماند پڑ رہی ہیں
وہ بے بسی ہے کہ پارسائی پہ آ گیا ہوں

نہ وہ اس طرح بدلتے نہ نگاہ پھیر لیتے
جو نہ بے بسی کا میری انہیں اعتبار ہوتا

حیات چند روزہ اپنی نجمیؔ
ہے تصویر مجسم بے بسی کی

جو گامزن ہیں سر جادۂ طلب نجمیؔ
وہ جانتے نہیں دنیا میں بے بسی کیا ہے

ہائے ری بے بسی شوق دل کا عجیب حال ہے
اس کا جواب سن چکا پھر بھی وہی سوال ہے

bebasi poetry in urdu text

اپنی نگاہ پھیر لے ہاں یہ مجھے قبول ہے
رکھ مری آرزو کی شرم شوق کی بے بسی نہ دیکھ

نمو کے باب میں وہ بے بسی کا عالم ہے
بہار مانگ رہی ہے خزاں رتوں سے گلاب

کہہ تو سکتا ہوں مگر مجبور کر سکتا نہیں
اختیار اپنی جگہ ہے بے بسی اپنی جگہ

بے بسی ہے خمار ہے کیا ہے
نام اس کا بھی پیار ہے کیا ہے

ستم کے ماروں کی بے حسی کو تماشا گاہوں میں لانے والو
نحیف جسموں کی بے بسی میں بغاوتیں بھی لکھی ہوئی ہیں

وقت بدلا ہے ہم تم تو بدلے نہیں
وہ ہی چاہت وہی بے بسی ہے ابھی

عشق کیا ہے بے بسی ہے بے بسی کی بات کر
یہ بھی کوئی زندگی ہے زندگی کی بات کر

ابھر رہی ہے جو رہ رہ کے دل کی دھڑکن میں
وہ آرزو ہے کہ ہے اس کی بے بسی کیا ہے

کیوں نہ آج اپنی بے بسی کا فراغؔ
دور سے بیٹھ کر مزہ لیا جائے

یہ اپنی بے بسی ہے یا کہ اپنی بے حسی یارو
ہے اپنا ہاتھ ان کے سامنے جو خود بھکاری ہیں

ہنسی آئی تھی اپنی بے بسی پر ایک دن مجھ کو
ابھی تک گونجتا ہے میرے اندر قہقہہ میرا

آنسوؤں سے لکھ رہے ہیں بے بسی کی داستاں
لگ رہا ہے درد کی تصویر بن جائیں گے ہم

بے بسی اور بھوک میں جو حوصلے دیتا رہا
پیار کرنے کی مجھے کمزوریاں بھی دے گیا

رات دن اک بے بسی زندہ رہی
میری آنکھوں میں نمی زندہ رہی

نہ پوچھ پائیں گے احوال بے بسی وہ بھی
مرے لبوں پہ اگر کپکپاہٹیں ہوں گی

جب آیا عید کا دن گھر میں بے بسی کی طرح
تو میرے پھول سے بچوں نے مجھ کو گھیر لیا

سرد موسم میں بے گھروں کی دشا
بے بسی خود بھی رو رہی ہوگی

بے بسی دیکھ یہ سو بار کیا عہد کہ اب
تجھ سے امید نہ رکھیں گے مگر رکھتے ہیں

بے بسی سی عجب زندگی میں اک ایسی بھی آئی کہ جب
ہم نے چپ چاپ ہاتھوں کو رسم حنا کے حوالے کیا

یہ جو زندگی ہے یہ کون ہے
یہ جو بے بسی ہے یہ کون ہے

سنا ہے لوگ وہاں مجھ سے خار کھاتے ہیں
فسانہ عام جہاں میری بے بسی کا ہے

کچھ اور بڑھ گئی بارش میں بے بسی اپنی
نہ بام سے نہ کسی کی گلی سے گزرا ہوں

میں گر پڑا تھا کہیں بے بسی کے عالم میں
مجھے اٹھا کے کسی نے گلے لگایا کیوں

میں گر پڑا تھا کہیں بے بسی کے عالم میں
مجھے اٹھا کے کسی نے گلے لگایا کیوں

کبھی جب ہاتھ مل کر ان سے کہتا ہوں کہ بے بس ہوں
تو وہ ہنس کر یہ کہتے ہیں تمہاری بے بسی اچھی

نا امیدی بے یقینی بے بسی بے چارگی
ایک تیرا ہی نہیں یہ قصہ اب گھر گھر کا ہے

عشق کر کے دیکھ لی جو بے بسی دیکھی نہ تھی
اس قدر الجھن میں پہلے زندگی دیکھی نہ تھی

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here