badgumani poetry in urdu
Urdu literature is full of unique styles, and one interesting type is “badgumani poetry in Urdu.” “Badgumani” means “mistrust” or “suspicion. In this blog, we’ll look at what makes Badgumani Poetry special. We’ll discuss its main themes, highlight famous poets, and explain why people enjoy it. Join us as we explore the deep emotions and powerful words in Badgumani Poetry, a fascinating part of Urdu literature. Also, read another famous Nasir Kazmi poetry ghazal.
ایک خلقت ہی نہیں ہے بد گمانی کا شکار
اس کی جانب سے مرے بھی دل میں شک آنے کو ہے
کمالؔ میں نے تو در سے دیے اٹھائے نہیں
اٹھائی اس نے ہی دیوار بد گمانی کی
بد گمانی کا دور ہے عابدؔ
بھائی ہے بد گمان بھائی سے
Amazing badgumani poetry in urdu
موسموں پر یقین کیوں چھوڑا
بد گمانی تو سائباں سے ہوئی
ٹوٹ جاتا ہے دم محبت کا
بد گمانی اگر جواں ہو جائے
میں اپنے دل پہ رکھ لیتا ہوں تہمت بد گمانی کی
اگر تیری طرف سے بے رخی محسوس کرتا ہوں
غیر کی بد گمانیوں پہ نہ جا
بے حقیقت کہانیوں پہ نہ جا
خودکشی جیسی کوئی بات نہیں
اک ذرا مجھ کو بد گمانی ہے
ظاہراً ساتھ وہ میرے تھا مگر آنکھوں سے
بد گمانی کے نقابوں کو اتارا کب تھا
یوں لٹا ہے گلشن وہم و گماں
کوئی خار بد گمانی بھی نہیں
خدا کا حکم بجا بد گمانی اپنی جگہ
غلط نہ تھا مرا انکار اس یقیں پہ تھا میں
مجھے کشتہ دیکھا تو قاتل نے پوچھا
یقیں ہے یہاں بد گمانی کی صورت
وہاں بد گمانی کی تعریف کیا ہو
یقیں ہو جہاں بد گمانی کی صورت
جو نقش فنا ہوں تو وہ دل پہ انورؔ
کھنچی اور اک بد گمانی کی صورت
طریقہ یہ بھی ہے اک امتحان جذبۂ دل کا
تمہاری بے رخی کو بد گمانی کون کہتا ہے
ادھر مشکوک ہے میری صداقت
ادھر بھی بد گمانی کم نہیں ہے
سبھی سے مسکرا کے بولتے ہو
یہی تو بد گمانی ہے اسی کی
badguman poetry
جو بات شرط وصال ٹھہری وہی ہے اب وجہ بد گمانی
ادھر ہے اس بات پر خموشی ادھر ہے پہلی سے بے زبانی
کسی کے حسن سے یہ ہم کو بد گمانی ہے
کہ پہلے نامہ سے ہم نامہ بر کو دیکھتے ہیں
بد گمانی سے ہوا اپنے پرائے کا گماں
ورنہ اپنا تھا نہ دنیا میں کوئی بیگانہ تھا
کسی کے عشق نہاں میں یہ بد گمانی تھی
کہ ڈرتے ڈرتے خدا پر بھی آشکار کیا
نگہباں سے بھی کیا ہوئی بد گمانی
اب اس کو ترے ساتھ کم دیکھتے ہیں
بد گمانی ہے اس کی آنکھوں میں
دل کے شیشے میں بال لگتا ہے
دراڑ بڑھتی ہے بڑھ جائے بد گمانی کی
ارادہ میرا بھی ان سے نہ بات کرنے کا
تیرے دل میں سدا کھٹکتا رہا
بد گمانی کا خار تھا کیا تھا
badgumani quotes in urdu
رشتوں کی ڈور ہاتھ سے چھوٹی تھی اس لیے
دامن جو بد گمانیوں سے تار تار تھا
بد گمانی پونچھ کر آنچل سے کوئی چوم لے
اس لئے تصویر پر کچھ گرد ہونا چاہئے
مکمل بد گمانی ہو گئی تھی اس کو سیدؔ
پلٹنے میں مجھے بھی اب سہولت ہو رہی تھی
کوئی اظہار ناخوشی بھی نہیں
بد گمانی سی بد گمانی ہے
لاکھ حسن یقیں سے بڑھ کر ہے
ان نگاہوں کی بد گمانی بھی
شریک شرم و حیا کچھ ہے بد گمانیٔ حسن
نظر اٹھا یہ جھجک سی نکل تو سکتی ہے
بد گمانی کو مری اور بڑھا دیتا ہے
ان کا یہ کہنا کہ دامن کش اغیار نہ بن
جس کی الفت میں دل دھڑکتا ہے
اب تلک اس کی بد گمانی ہے
بد گمانی سے ہمیں بیٹھتے اٹھتے ہے یہ سوچ
بیٹھے ہوں گے اسے اغیار بغل میں لے کر
بڑھی ہے آپس میں بد گمانی مزہ محبت کا آ رہا ہے
ہم اس کے دل کو ٹٹولتے ہیں تو ہم کو وہ آزما رہا ہے
آپس میں ہوئی جو بد گمانی
مشکل ہے نباہ دوستی کا
تجھے کھو دیا ہے پا کر یہ مری ہے بد نصیبی
کبھی تم بتا تو دیتے مجھے وجہ بد گمانی
اپنے سائے سے ہم خود اے حیات ڈرتے ہیں
مصلحت کی دنیا میں کتنی بد گمانی ہے
بد گمانی کی فضا میں کیا صفائی دیں تمہیں
اس فضا میں کوئی بھی حل مسئلہ ہوتا نہیں
نہ کر شکوہ ہماری بے سبب کی بد گمانی کا
محبت میں ترے سر کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے
عبث صیاد کو ہے بد گمانی
نہیں بازو میں اپنے ایک پر تک
دم بدم کہہ بیٹھنا بس جاؤ اپنی ان کے پاس
کیوں نہیں جاتی وہ اب تک بد گمانی آپ کی
غیر سمجھا ہے کسے اے ہم نشیں
میرے دل میں بد گمانی اور ہے
اپنی سانسوں پہ یوں بد گمانی سی ہے
کوئی کاٹے بدن تو نہ نکلے لہو
واں ہے یہ بد گمانی جاوے حجاب کیوں کر
دو دن کے واسطے ہو کوئی خراب کیوں کر
میں برگ خشک ہوں ہم راہ میرے
ہوا کی بد گمانی چل رہی ہے
تمہارے سامنے آؤں تمہیں اپنی صفائی دوں
سبب معلوم ہو تب نا تمہاری بد گمانی کا
قربتیں فاصلوں میں بدلتی رہیں
بد گمانی ہر اک موڑ پر تیرے بن
تم رہے پاک صاف دل ہر دم
میں رہا صرف بد گمانی میں
بد گمانی کو کیا چائے پلا کر رخصت
ناشتے کا بھی طلب گار نہیں ہونے دیا
بد گمانی سے ڈرا ورنہ لیا تیرا جو نام
دیکھنا بوسہ کی خاطر میں لب دلالہ تھا
حفاظت میں وہ دیکھے غیر کی تجھ کو قیامت ہے
کبھی جو بد گمانی سے نہ ہو کہتا خدا حافظ
بد گمانی نے نہ چاہا اسے سرگرم خرام
رخ پہ ہر قطرہ عرق دیدۂ حیراں سمجھا
حسن ظن کام لیجے بد گمانی پھر سہی
بے تکلف اور کیجے مہربانی پھر سہی
تھی بد گمانی اب انہیں کیا عشق حور کی
جو آ کے مرتے دم مجھے صورت دکھا گئے
نہیں شکوہ اندھیروں سے شکایت ہے اجالوں سے
سدا زخموں پہ چمکے ہیں بہت ہی بد گمانی میں
میں ہوا ناکام اپنی بے یقینی کے سبب
جو ہوا سب میرے دل کی بد گمانی سے ہوا
جب بھی ملنے کے زمانے آئے
بد گمانی میں سلگتے آئے