best Urdu Poetry on Eyes
The eyes are more than just a sense organ. They hold our deepest emotions, darkest secrets, and brightest hopes. Urdu Poetry on Eyes explores the language of the eyes, where a single glance can speak a thousand words. Join us on a journey through the windows of the soul, Also read another best eyes poetry in urdu.
گمان تھا کہ سمجھ لیں گے موسموں کا مزاج
کھلی جو آنکھ تو زد پہ سبھی ٹھکانے تھے
عجب رنگ آنکھوں میں آنے لگے
ہمیں راستے پھر بلانے لگے
سڑک پہ چلتے ہوئے آنکھیں بند رکھتا ہوں
ترے جمال کا ایسا مزہ پڑا ہے مجھے
best Urdu Poetry on Eyes
آنکھوں کے سامنے کوئی منظر نیا نہ تھا
بس وہ ذرا سا فاصلہ باقی رہا نہ تھا
آنکھوں کے بند باب لیے بھاگتے رہے
بڑھتے ہوئے عتاب لیے بھاگتے رہے
سوال کرتی کئی آنکھیں منتظر ہیں یہاں
جواب آج بھی ہم سوچ کر نہیں آئے
اداس سونی سی چھت اور دو بجھی آنکھیں
کئی دنوں سے پھر آشفتہؔ گھر نہیں آئے
مناظر دھند میں چھپ جائیں گے سب
خلا میں گھورتی آنکھیں رہیں گی
ہمیں خبر تھی زباں کھولتے ہی کیا ہوگا
کہاں کہاں مگر آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لیتے
یہ اندھیرے ہیں غنیمت کوئی رستہ ڈھونڈ لو
صبح کی پہلی کرن آنکھیں اٹھا لے جائے گی
کیا کیا چھینے گا اے امیر شہر
اتنے منظر ہیں میری آنکھوں میں
آنکھ کھلتے ہی بستیاں تاراج
کوئی لذت نہیں ہے خوابوں میں
ان آنکھوں کو جب سے بصارت ملی ہے
سوا تیرے کچھ میں نے دیکھا نہیں ہے
برچھی تھی وہ نگاہ دیکھو تو
لہو آنکھوں میں ہے کہ آنسو ہے
میری آنکھیں اور اس کی خاک پا
تیرے کوچے کا اگر رہبر ملے
کئی آنکھیں گڑھی جاتی ہیں مجھ میں
کوئی روزن در و دیوار میں ہے
سرشار ہوں ساقی کی آنکھوں کے تصور سے
ہے کوئی غرض مجھ کو بادہ سے نہ ساغر سے
سمندر کی طرح وہ شانت لیکن
لہو اس آنکھ سے ٹپکا نہ ہوگا
آنکھوں کو نقش پا ترا دل کو غبار کر دیا
ہم نے وداع یار کو اپنا حصار کر دیا
جب کہ ان آنکھوں کی مشعل بام پر روشن نہیں
شہر میں یاسرؔ کوئی ماہ تمام آیا تو کیا
مجھ کو آتشؔ بادہ و ساغر سے ہو کیا واسطہ؟
ان کی آنکھیں دیکھ کر مخمور ہو جاتا ہوں میں
romantic poetry on eyes in urdu text
نیند بھری ان آنکھوں میں
خواب کہاں سے لاؤں میں
میری آنکھوں سے قیامت برسے
جو بھی کچھ تو نے دیا ہے کیا ہے
کتنی خوش پوش فضا ہے خورشیدؔ
تیری آنکھوں کا نشہ ہے کیا ہے
میں پیمبر نہیں ہوں توبہ
آنکھ دی ہے کتاب بھی دے
مجھ سے جو سر محفل تم آنکھ چراتے ہو
کیا راز محبت کو افسانہ بنانا ہے
تڑپتا ہے تری فرقت میں کوئی نیم جاں ہو کر
ستم ہے پھیر لینا آنکھ تیرا مہرباں ہو کر
2 line shayari on eyes in urdu text
اس کی آنکھیں بھی حسیں آنکھ میں آنسو بھی حسیں
غم میں ڈوبا ہوا چہرہ بھی غزل جیسا تھا
اس کی آنکھوں میں میری غزلیں ہیں
میری غزلوں میں اس کا چہرا ہے
اشکوں کو آرزوئے رہائی ہے روئیے
آنکھوں کی اب اسی میں بھلائی ہے روئیے
انہیں آنکھوں نے بیدردی سے بے گھر کر دیا ہے
یہ آنسو قہقہہ بننے کی کوشش کر رہے تھے
طلب کریں تو یہ آنکھیں بھی ان کو دے دوں میں
مگر یہ لوگ ان آنکھوں کے خواب مانگتے ہیں
آنکھوں میں تر و تازہ ہیں جس عہد کے منظر
ہم لوگ اسی عہد گزشتہ میں جواں ہیں
دل تھا کہ کسی ساعت پر خوں میں ہوا سرد
آنکھیں ہیں کہ اب تک تری جانب نگراں ہیں
اس حسیں تصور کا میری سرخ آنکھوں سے
آب و گل کا ناطہ ہے بام و در کا رشتہ ہے
ایک نظارے نے میرے لیے آنکھیں بھیجیں
دل کسی کارگہہ شیشہ گراں سے آیا
میں تو اک خواب کو آنکھوں میں لیے پھرتا تھا
یہ ستارہ مرے پہلو میں کہاں سے آیا
پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے
آنکھ پہ پٹی باندھ کے مجھ کو تنہا چھوڑ دیا ہے
یہ کس نے صحرا میں لا کر صحرا چھوڑ دیا ہے
میری آنکھوں سے بہا کرتی ہے ان کی خوشبو
رفتگاں خواب میں آتے ہیں چلے جاتے ہیں
تبھی تو پیڑ کی آنکھوں میں چاند بھر آیا
کسی نے کہہ دیا ہوگا کہ شام آخری ہے
آنکھیں مل مل کے دیکھتا ہوں اسے
دوپہر میں یہ چاند سا کیا ہے
سوچتے ہونٹ بولتی آنکھیں
حیرتی کا مکالمہ کیا ہے
اب تو ہم یوں رہتے ہیں اس ہجر بھرے ویرانے میں
جیسے آنکھ میں آنسو گم ہو جیسے حرف کتاب میں چپ
آنکھ کی تہ میں کوئی صحرا نہ ہو
آ رہی ہے ریت بھی پانی کے ساتھ
تو خدا ہونے کی کوشش تو کرے گا لیکن
ہم تجھے آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیں گے
بس یہی دیکھنے کو جاگتے ہیں شہر کے لوگ
آسماں کب تری آنکھوں کی طرح ہوتا ہے
اس کی آنکھوں میں امڈ آتے ہیں آنسو تابشؔ
وہ جدا چاہنے والوں کی طرح ہوتا ہے
ان آنکھوں میں کودنے والو تم کو اتنا دھیان رہے
وہ جھیلیں پایاب ہیں لیکن ان کی تہہ پتھریلی ہے
میں نے آنکھوں کے کنارے بھی نہ تر ہونے دیئے
جس طرف سے آیا تھا سیلاب واپس کر دیا
آنکھوں تک آ سکی نہ کبھی آنسوؤں کی لہر
یہ قافلہ بھی نقل مکانی میں کھو گیا
ستارے چور آنکھوں سے نہ دیکھیں
زمیں پر میری نگرانی بہت ہے
ابھی سوکھی نہیں مٹی کی آنکھیں
ابھی دریاؤں میں پانی بہت ہے
کہانیوں میں تو یہ کام اژدہے کا تھا
مری جب آنکھ کھلی میرے چار سو تم تھے
نیست میں ہست کا احساس دلاتی ہوئی آنکھ
شور کرتی ہے کہ ہے کن فیکوں ہے یوں ہے
ہماری آنکھوں سے خواب و خس کے تمام پشتے ہٹائے جائیں
ہمارا ناراض پانیوں سے معاہدہ ختم ہو گیا ہے
آنکھ تو کھلتی ہے کرنوں کی طلب میں لیکن
زیب مژگاں کسی نیزے کی انی ہوتی ہے
اسی کے دم قدم سے ہے جہان دید و نظارا
کہیں آنکھوں میں بستا ہے کہیں منظر میں رہتا ہے
مری آنکھوں سے لے کر تیرے چہرے تک ستارے ہیں
کہ جو گردش میں آ جائے اسی محور میں رہتا ہے
رستے میں آنکھ تھی سگ مامور کی طرح
دل میں جو چور تھا وہ کدھر سے نکل گیا
تب مری آنکھ کھلا کرتی تھی اندر کی طرف
میں نے دیکھا ہے اسے پہلی نظر سے پہلے
رات گئے جب تارے بھی کچھ بے معنی سے لگتے ہیں
ایک دبستاں کھلتا ہے ان آنکھوں کی تفسیروں کا
تیری آنکھوں سے اپنی طرف دیکھنا بھی اکارت گیا
یعنی پہچان کا یہ نیا سلسلہ بھی اکارت گیا
طلسم خواب سے میرا بدن پتھر نہیں ہوتا
مری جب آنکھ کھلتی ہے میں بستر پر نہیں ہوتا
آئے ہیں اگرچہ کئی چہروں سے الجھ کر
لگتا ہے کہ ہم آنکھ بچا کر نکل آئے
یہ کہہ رہی ہیں کسی کی جھکی جھکی آنکھیں
بدن کی آنچ نظر کے خمار میں گم ہے
کیوں کر سخن آغاز کیا جائے کہ وہ آنکھ
لا رکھتی ہے اجداد کا لکھا مرے آگے
پھوٹی ہیں جس جگہ مری آنکھوں کی کونپلیں
دل سے پرے وہ خطۂ شاداب اور ہے