65+ best alone night poetry in urdu

Alone Night Poetry in Urdu

When the world is asleep, and the darkness is all left, our true thoughts and feelings come alive. Alone night poetry in urdu is a collection of verses that speak to the loneliness, longing, and introspection that comes with the still of the night. Join us as we explore the quiet hours of the soul. Also, I read another night poetry.

alone night poetry in urdu

سنتا ہوگا صدائیں اس دل کی
شام تنہائی میں وہ جب ہوگا

alone night poetry in urdu

صبح کے سارے اجالے راستوں میں کھو گئے
شب کے اندھیاروں میں گم ہیں شام کے منظر تمام

alone night poetry in urdu

بزم سجا کر بھینٹ کیے ہیں ہمدردی کے چند الفاظ
میرا دکھڑا بانٹ رہے ہیں میرے غم میں شامل لوگ

نہ رکنا راہ میں شرط سفر میں شامل تھا
تھکن سے ورنہ بہت چور چور میں بھی تھا

خوشامدی نہیں رکھتا ہے اپنے کام سے کام
تو کیا پڑی ہے تجھے افسروں میں بیٹھنے کی

خوشامدی نہیں رکھتا ہے اپنے کام سے کام
تو کیا پڑی ہے تجھے افسروں میں بیٹھنے کی

خبر کسے ہے کسے پوچھیے بتائے کون
پرانے قصر میں کیا صبح و شام جلتا تھا

دن کے سینے پہ شام کا پتھر
ایک پتھر پہ دوسرا پتھر

شام ساحل پہ گم صم سی بیٹھی ہوئی
اور دریا میں سونا بکھرتا ہوا

زلفیں وہ پری ہلا رہی ہے
دیوانوں کی شامت آ رہی ہے

گھبرا نہ اس قدر دل بے تاب صبر کر
آتا ہے کوئی روز میں اب صبح و شام خط

دکھائی مجھے کس لیے شام ہجر
شب وصل کی کیوں سحر ہو گئی

زلف کے جنجال میں پھنسنے کی خود کرتا دعا
میں سڑی تھا جو خدا سے اپنی شامت مانگتا

ڈھلے گی رات تو پھیلے گا نور بھی اس کا
چراغ اپنا سر شام جھلملاتا ہے

تب ہوگی خبر کتنی ہے رفتار تغیر
جب شام ڈھلے لوٹ کے آئے گا کوئی اور

امید سحر بھی تو وراثت میں ہے شامل
شاید کہ دیا اب کے جلائے گا کوئی اور

شامل پس پردہ بھی ہیں اس کھیل میں کچھ لوگ
بولے گا کوئی ہونٹ ہلائے گا کوئی اور

آج کی رات نہ جانے کتنی لمبی ہوگی
آج کا سورج شام سے پہلے ڈوب گیا ہے

تھا انتظار منائیں گے مل کے دیوالی
نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ وقت شام ہوا

شام سے ہی گھروں میں پڑیں کنڈیاں
چاند اس شہر میں کیوں نکلتا نہیں

Night poetry in urdu copy and paste

اس ہجوم بے کراں سے بھاگ کر جاتا کہاں
تم نے روکا تو بہت تھا میں ہی شامل ہو گیا

اے جنوں پھر مرے سر پر وہی شامت آئی
پھر پھنسا زلفوں میں دل پھر وہی آفت آئی

وہ خط وہ چہرہ وہ زلف سیاہ تو دیکھو
کہ شام صبح کے بعد آئے صبح شام کے بعد

دیکھو تو شب تار کے مارے ہوئے لوگو
جو شام ہے پابند سحر ہے کہ نہیں ہے

ہم شام غم کو صبح مسرت کا نام دیں
سورج کریں طلوع نہ کیوں تیرگی سے ہم

صاحبو مجھ کو ابھی رقص نہیں آتا ہے
جھوم لیتا ہوں فقط شام کے آثار کے ساتھ

Sad night poetry in Urdu text

انہی حیرتوں میں بسر ہوئی نہ خبر ہوئی کہ سحر ہوئی
یہ تمام عرصۂ زندگی کہ محیط شام وصال تھا

اپنے چہرے سے جو زلفوں کو ہٹایا اس نے
دیکھ لی شام نے تابندہ سحر کی صورت

سبھی شامل تھے یارو یوں تو گلشن کی تباہی میں
اب اتنا صاف کیا کہئے کہ ان میں باغباں بھی تھا

پھر وہی اندوہ جاں ہے اور میں
شام ہے مے ہے دھواں ہے اور میں

ماتم شوق بپا کرتے ہیں ہر شام یہاں
جسم کو ہم نے اذاں خانہ بنا رکھا ہے

دھواں سا پھیل گیا دل میں شام ڈھلتے ہی
بدل گئے مرے موسم ترے بدلتے ہی

کوئی ملتا نہیں یہ بوجھ اٹھانے کے لیے
شام بے چین ہے سورج کو گرانے کے لیے

تبھی تو پیڑ کی آنکھوں میں چاند بھر آیا
کسی نے کہہ دیا ہوگا کہ شام آخری ہے

شروع عشق میں ایسی اداسیاں تابشؔ
ہر ایک شام یہ لگتا ہے شام آخری ہے

لفظوں کے بٹوارے میں اس چیخ بھرے گہوارے میں
بول تو ہم بھی سکتے ہیں پر شامل ہے آداب میں چپ

کہیں لالی بھری تھالی نہ گر جائے سمندر میں
چلا ہے شام کا سورج کہاں آہستہ آہستہ

اگر بجھنے لگیں ہم تو ہوائے شام تنہائی
کسی محراب میں جا کر ہمیں دوبارہ رکھتی ہے

سورج اسی طرح ہے یہ مہتاب اسی طرح
ڈھلتے رہے ہیں یار ہی شام و سحر کے ساتھ

شام کے بعد اندھیرا نہیں رہتا گھر میں
ایک سورج نکل آتا ہے سحر سے پہلے

تابشؔ جو گزرتی ہی نہیں شام کی حد سے
سوچیں تو وہیں رات سحر خیز بہت ہے

تو پھر یہ کون ہے نصف النہار کے ہنگام
قیام و رقص کی حالت میں شام کرتا ہوا

جہاں بھی شام تن جائے محافظ سانپ کی صورت
میں اپنی ریز گاری کی وہیں انبار کرتا ہوں

اب تو اس چھت پر کوئی ماہ شبانہ چاہئے
سایۂ قامت فصیل شام تک آنے کو ہے

راستے گم ہو رہے ہیں دھند کی پہنائی میں
سردیوں کی شام ہے پھر اس کا چک آنے کو ہے

روز اک بجھتی ہوئی سیلن بھرے کمرے کی شام
کھڑکیوں میں روز مرجھاتے یہ بیماری کے دن

خوش آمدید کا منظر غروب شام میں تھا
در شفق پہ فرشتے سے مسکرانے لگے

ہیبت کے بام پر تھی بلاوے کی روشنی
تھی وسوسوں کی شام پہ جانا ضرور تھا

فکر کی کس سرشار ڈگر پر شام ڈھلے جی چاہا
جھیل میں ٹھہرے اپنے عکس کو چومیں ہونٹ بھگو لیں

یہ خموشی یہ گھلاوٹ یہ بچھڑتے ہوئے رنگ
شام اک درد بھرا پیار ہوئی جاتی ہے

زیست یوں شام کے لمحوں سے گزرتی ہے کبھی
خود بہ خود شرح غم یار ہوئی جاتی ہے

مری نگاہوں پہ جس نے شام و سحر کی رعنائیاں لکھی ہیں
اسی نے میری شبوں کے حق میں یہ کرب آسائیاں لکھی ہیں

پھولی ہے شفق گو کہ ابھی شام نہیں ہے
ہے دل میں وہ غم جس کا کوئی نام نہیں ہے

سکوں سے مرتے ہیں مرنے والے جنہیں اجالوں کی ہے تمنا
یہی بہت ہے کہ سوئے مقتل چراغ شام و سحر رہے ہیں

یہ شام سرد میں ہر سو الاؤ جلتے ہیں
سیہ خموشی میں کوئی صدا ملے تو سہی

یہی شام کا وقت تھا گھر سے نکلے کہ یاد آ گیا تھا
بہت دن ہوئے آج وہ سب دوبارہ بہت یاد آیا

وہی اک سمندر وہی اک ہوا
مری شام تیرا سنورنا بھی کیا

عجیب شے ہے کہ صورت بدلتی جاتی ہے
یہ شام جیسے مقابر میں ڈھلتی جاتی ہے

شام ساکت شجر در شجر رہ گزر رہ گزر
آنکھ ملتی اٹھی تیرگی کچھ نہیں کچھ نہیں

پھر آج عدمؔ شام سے غمگیں ہے طبیعت
پھر آج سر شام میں کچھ سوچ رہا ہوں

ذکر اس کا گفتگو میں جو شامل ہوا عدمؔ
جو شعر کہہ دیا وہ پری خانہ بن گیا

Leave a Comment