Zafar Iqbal poetry urdu

Join us on a journey through the insightful and emotional world of Zafar Iqbal Urdu poetry. His words paint vivid pictures of love, life, and the human experience, inviting us to reflect, feel, and connect with our own thoughts and emotions. Also, read another urdu word collection.

zafar iqbal poetry urdu

ابھی آنکھیں کھلی ہیں اور کیا کیا دیکھنے کو
مجھے پاگل کیا اس نے تماشا دیکھنے کو

وہ صورت دیکھ لی ہم نے تو پھر کچھ بھی نہ دیکھا
ابھی ورنہ پڑی تھی ایک دنیا دیکھنے کو

تمنا کی کسے پروا کہ سونے جاگنے میں
میسر ہیں بہت خواب تمنا دیکھنے کو

بہ ظاہر مطمئن میں بھی رہا اس انجمن میں
سبھی موجود تھے اور وہ بھی خوش تھا دیکھنے کو

اب اس کو دیکھ کر دل ہو گیا ہے اور بوجھل
ترستا تھا یہی دیکھو تو کتنا دیکھنے کو

اب اتنا حسن آنکھوں میں سمائے بھی تو کیونکر
وگرنہ آج اسے ہم نے بھی دیکھا دیکھنے کو

چھپایا ہاتھ سے چہرہ بھی اس نامہرباں نے
ہم آئے تھے ظفرؔ جس کا سراپا دیکھنے ک

zafar iqbal poetry urdu

بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا
پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایا تھا

گلی میں لوگ بھی تھے میرے اس کے دشمن لوگ
وہ سب پہ ہنستا ہوا میرے دل میں آیا تھا

اس ایک دشت میں سو شہر ہو گئے آباد
جہاں کسی نے کبھی کارواں لٹایا تھا

وہ مجھ سے اپنا پتا پوچھنے کو آ نکلے
کہ جن سے میں نے خود اپنا سراغ پایا تھا

مرے وجود سے گلزار ہو کے نکلی ہے
وہ آگ جس نے ترا پیرہن جلایا تھا

مجھی کو طعنۂ غارت گری نہ دے پیارے
یہ نقش میں نے ترے ہاتھ سے مٹایا تھا

اسی نے روپ بدل کر جگا دیا آخر
جو زہر مجھ پہ کبھی نیند بن کے چھایا تھا

ظفرؔ کی خاک میں ہے کس کی حسرت تعمیر
خیال و خواب میں کس نے یہ گھر بنایا تھا

zafar iqbal poetry urdu

جیسی اب ہے اسی حالت میں نہیں رہ سکتا
میں ہمیشہ تو محبت میں نہیں رہ سکتا

کھل کے رو بھی سکوں اور ہنس بھی سکوں جی بھر کے
ابھی اتنی بھی فراغت میں نہیں رہ سکتا

دل سے باہر نکل آنا مری مجبوری ہے
میں تو اس شور قیامت میں نہیں رہ سکتا

کوچ کر جائیں جہاں سے مرے دشمن اے دوست
میں وہاں بھی کسی صورت میں نہیں رہ سکتا

کوئی خطرہ ہے مجھے اور طرح کا اے دوست
میں جو اب تیری حفاظت میں نہیں رہ سکتا

چاہیئے ہے مجھے کچھ اور ہی ماحول کہ میں
اور اب اپنی رفاقت میں نہیں رہ سکتا

کچھ بھی میں کرتا کراتا تو نہیں ہوں لیکن
باوجود اس کے فراغت میں نہیں رہ سکتا

شک مجھے یوں تو خیانت کا نہیں ہے کوئی
میں کسی کی بھی امانت میں نہیں رہ سکتا

ویسے رہنے کو تو خوش باش ہی رہتا ہوں ظفرؔ
سچ جو پوچھیں تو حقیقت میں نہیں رہ سکتا

کب وہ ظاہر ہوگا اور حیران کر دے گا مجھے
جتنی بھی مشکل میں ہوں آسان کر دے گا مجھے

روبرو کر کے کبھی اپنے مہکتے سرخ ہونٹ
ایک دو پل کے لیے گلدان کر دے گا مجھے

روح پھونکے گا محبت کی مرے پیکر میں وہ
پھر وہ اپنے سامنے بے جان کر دے گا مجھے

خواہشوں کا خوں بہائے گا سر بازار شوق
اور مکمل بے سر و سامان کر دے گا مجھے

منہدم کر دے گا آ کر ساری تعمیرات دل
دیکھتے ہی دیکھتے ویران کر دے گا مجھے

ایک ناموجودگی رہ جائے گی چاروں طرف
رفتہ رفتہ اس قدر سنسان کر دے گا مجھے

یا تو مجھ سے وہ چھڑا دے گا غزل گوئی ظفرؔ
یا کسی دن صاحب دیوان کر دے گا مجھے

تھکنا بھی لازمی تھا کچھ کام کرتے کرتے
کچھ اور تھک گیا ہوں آرام کرتے کرتے

اندر سب آ گیا ہے باہر کا بھی اندھیرا
خود رات ہو گیا ہوں میں شام کرتے کرتے

یہ عمر تھی ہی ایسی جیسی گزار دی ہے
بدنام ہوتے ہوتے بدنام کرتے کرتے

پھنستا نہیں پرندہ ہے بھی اسی فضا میں
تنگ آ گیا ہوں دل کو یوں دام کرتے کرتے

کچھ بے خبر نہیں تھے جو جانتے ہیں مجھ کو
میں کوچ کر رہا تھا بسرام کرتے کرتے

سر سے گزر گیا ہے پانی تو زور کرتا
سب روک رکتے رکتے سب تھام کرتے کرتے

کس کے طواف میں تھے اور یہ دن آ گئے ہیں
کیا خاک تھی کہ جس کو احرام کرتے کرتے

جس موڑ سے چلے تھے پہنچے ہیں پھر وہیں پر
اک رائیگاں سفر کو انجام کرتے کرتے

آخر ظفرؔ ہوا ہوں منظر سے خود ہی غائب
اسلوب خاص اپنا میں عام کرتے کرتے

آگ کا رشتہ نکل آئے کوئی پانی کے ساتھ
زندہ رہ سکتا ہوں ایسی ہی خوش امکانی کے ساتھ

تم ہی بتلاؤ کہ اس کی قدر کیا ہوگی تمہیں
جو محبت مفت میں مل جائے آسانی کے ساتھ

بات ہے کچھ زندہ رہ جانا بھی اپنا آج تک
لہر تھی آسودگی کی بھی پریشانی کے ساتھ

چل رہا ہے کام سارا خوب مل جل کر یہاں
کفر بھی چمٹا ہوا ہے جذب ایمانی کے ساتھ

فرق پڑتا ہے کوئی لوگوں میں رہنے سے ضرور
شہر کے آداب تھے اپنی بیابانی کے ساتھ

یہ وہ دنیا ہے کہ جس کا کچھ ٹھکانا ہی نہیں
ہم گزارہ کر رہے ہیں دشمن جانی کے ساتھ

رائیگانی سے ذرا آگے نکل آئے ہیں ہم
اس دفعہ تو کچھ گرانی بھی ہے ارزانی کے ساتھ

اپنی مرضی سے بھی ہم نے کام کر ڈالے ہیں کچھ
لفظ کو لڑوا دیا ہے بیشتر معنی کے ساتھ

فاصلوں ہی فاصلوں میں جان سے ہارا ظفرؔ
عشق تھا لاہوریے کو ایک ملتانی کے ساتھ

ابھی تو کرنا پڑے گا سفر دوبارہ مجھے
ابھی کریں نہیں آرام کا اشارہ مجھے

لہو میں آئے گا طوفان تند رات بہ رات
کرے گی موج بلا خیز پارہ پارہ مجھے

بجھا نہیں مرے اندر کا آفتاب ابھی
جلا کے خاک کرے گا یہی شرارہ مجھے

اتار پھینکتا میں بھی یہ تار تار بدن
اسیر خاک ہوں کرنا پڑا گزارہ مجھے

اڑے وہ گرد کہ میں چار سو بکھر جاؤں
غبار میں نظر آئے نہ کوئی چارہ مجھے

مرے حدود میں ہے میرے آس پاس کی دھند
رہا یہ شہر تو اس کا نہیں اجارہ مجھے

سحر ہوئی تو بہت دیر تک دکھائی دیا
غروب ہوتی ہوئی رات کا کنارہ مجھے

مری فضا میں ہے ترتیب کائنات کچھ اور
عجب نہیں جو ترا چاند ہے ستارہ مجھے

نہ چھو سکوں جسے کیا اس کا دیکھنا بھی ظفرؔ
بھلا لگا نہ کبھی دور کا نظارہ مجھے

ایک ہی بار نہیں ہے وہ دوبارہ کم ہے
میں وہ دریا ہوں جسے اپنا کنارہ کم ہے

وہی تکرار ہے اور ایک وہی یکسانی
اس شب و روز میں اب اپنا گزارہ کم ہے

میرے دن رات میں کرنا نہیں اب اس کو شمار
حصۂ عمر کوئی میں نے گزارا کم ہے

میں زیادہ ہوں بہت اس کے لیے اب تک بھی
اور میرے لیے وہ سارے کا سارا کم ہے

اس کی اپنی بھی توجہ نہیں مجھ پر کوئی خاص
اور میں نے بھی ابھی اس کو پکارا کم ہے

آج پانی جو اچھلتا نہیں پہلے کی طرح
ایسا لگتا ہے کہ اس میں کوئی دھارا کم ہے

ہاتھ پیر آپ ہی میں مار رہا ہوں فی الحال
ڈوبتے کو ابھی تنکے کا سہارا کم ہے

میں تو رکھتا ہوں بہت روز کے روز ان کا حساب
آسماں پر کوئی آج ایک ستارہ کم ہے

پیش رفت اور ابھی ممکن بھی نہیں ہے کہ ظفرؔ
ابھی اس شوخ پہ کچھ زور ہمارا کم ہے

یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا

غزال اشک سر صبح دوب مژگاں پر
کب آنکھ اپنی کھلی اور لہو لہو نہ ملا

چمکتے چاند بھی تھے شہر شب کے ایواں میں
نگار غم سا مگر کوئی شمع رو نہ ملا

انہی کی رمز چلی ہے گلی گلی میں یہاں
جنہیں ادھر سے کبھی اذن گفتگو نہ ملا

پھر آج مے کدۂ دل سے لوٹ آئے ہیں
پھر آج ہم کو ٹھکانے کا ہم سبو نہ ملا

zafar iqbal ghazal

سمٹنے کی ہوس کیا تھی بکھرنا کس لیے ہے
وہ جینا کس کی خاطر تھا یہ مرنا کس لیے ہے

محبت بھی ہے اور اپنا تقاضا بھی نہیں کچھ
ہم اس سے صاف کہہ دیں گے مکرنا کس لیے ہے

جھجھکنا ہے تو اس کے سامنے ہونا ہی کیسا
جو ڈرنا ہے تو دریا میں اترنا کس لیے ہے

مسافت خواب ہے تو خواب میں اب جاگنا کیا
اگر چل ہی پڑے ہیں تو ٹھہرنا کس لیے ہے

نہ کرنے سے بھی ہوتا ہو جہاں سب کا گزارہ
وہاں آخر کسی نے کام کرنا کس لیے ہے

اگر رکنا نہیں اس نے ہمارے پاس تو پھر
ہمارے راستے پر سے گزرنا کس لیے ہے

وہ کہہ دے گا تو اٹھ جائیں گے اس کی بزم سے ہم
مناسب ہی نہیں لگتا پسرنا کس لیے ہے

ظفرؔ اس پر اثر تو کوئی ہوتا ہے نہ ہوگا
تو پھر یہ روز کا بننا سنورنا کس لیے ہے

خوشی ملی تو یہ عالم تھا بدحواسی کا
کہ دھیان ہی نہ رہا غم کی بے لباسی کا

چمک اٹھے ہیں جو دل کے کلس یہاں سے ابھی
گزر ہوا ہے خیالوں کی دیو داسی کا

گزر نہ جا یوں ہی رخ پھیر کر سلام تو لے
ہمیں تو دیر سے دعوی ہے روشناسی کا

خدا کو مان کہ تجھ لب کے چومنے کے سوا
کوئی علاج نہیں آج کی اداسی کا

گرے پڑے ہوئے پتوں میں شہر ڈھونڈتا ہے
عجیب طور ہے اس جنگلوں کے باسی کا

میں نے کب دعویٰ کیا تھا سر بسر باقی ہوں میں
پیش خدمت ہوں تمہارے جس قدر باقی ہوں میں

میں بہت سا جیسے ضائع ہو چکا ہوں جا بہ جا
ہاتھ سے محسوس کرتا ہوں کدھر باقی ہوں میں

ڈھونڈتے ہیں اب جہاں میرا نشاں تک بھی نہیں
اس طرف بھی دیکھ لینا تھا جدھر باقی ہوں میں

میری تفصیلات میں جانے کا موقع اب کہاں
اب تو آساں ہے سمجھنا مختصر باقی ہوں میں

دن چڑھے ہونا نہ ہونا ایک سا رہ جائے گا
یہ بھی کیا کم ہے کہ اب سے رات بھر باقی ہوں میں

خرچ سارا ہو چکا ہوں اور دنیا میں کہیں
کچھ اگر ہوں بھی تو خود سے بے خبر باقی ہوں میں

میں کسی کام آ بھی سکتا ہوں اگر سمجھے کوئی
آج بھی خس خانۂ دل میں شرر باقی ہوں میں

میں اگر باقی نہیں ہوں تو بھی ہے کس کو غرض
اور ہے پروا یہاں کس کو اگر باقی ہوں میں

کچھ بھی ہو بے سود ہے مجھ سے سفر کرنا ظفرؔ
جو کہیں جاتی نہیں وہ رہگزر باقی ہوں میں

لہر کی طرح کنارے سے اچھل جانا ہے
دیکھتے دیکھتے ہاتھوں سے نکل جانا ہے

دوپہر وہ ہے کہ ہوتی نظر آتی ہی نہیں
دن ہمارا تو بہت پہلے ہی ڈھل جانا ہے

جی ہمارا بھی یہاں اب نہیں لگتا اتنا
آج اگر روک لیے جائیں تو کل جانا ہے

دل میں کھلتا ہوا اک آخری خواہش کا یہ پھول
جاتے جاتے اسے خود میں نے مسل جانا ہے

جو یہاں خود ہی لگا رکھی ہے چاروں جانب
ایک دن ہم نے اسی آگ میں جل جانا ہے

چلتی رکتی ہوئی یہ حسن بھی ہے ایک ہوا
موسم عشق بھی اک روز بدل جانا ہے

جیسے گھٹی میں کوئی خوف پڑا ہو اس کی
بات بے بات ہی اس دل نے دہل جانا ہے

اور تو ہونی ہے کیا اپنی وصولی اس سے
منہ پہ کالک یہ ملاقات کی مل جانا ہے

میں بھی کچھ دیر سے بیٹھا ہوں نشانے پہ ظفرؔ
اور وہ کھینچا ہوا تیر بھی چل جانا ہے

بات ایسی بھی کوئی نہیں کہ محبت بہت زیادہ ہے
لیکن ہم دونوں سے اس کی طاقت بہت زیادہ ہے

آپ کے پیچھے پیچھے پھرنے سے تو رہے اس عمر میں ہم
راہ پہ آ بیٹھے ہیں یہ بھی غنیمت بہت زیادہ ہے

عشق اداسی کے پیغام تو لاتا رہتا ہے دن رات
لیکن ہم کو خوش رہنے کی عادت بہت زیادہ ہے

کام تو کافی رہتا ہے لیکن کرنا ہے کس نے یہاں
بے شک روز ادھر آ نکلو فرصت بہت زیادہ ہے

کیا کچھ ہو نہ سکا ہم سے اور ہونے والا ہے کیا کچھ
حسرت بھی کافی ہے لیکن حیرت بہت زیادہ ہے

سیر ہی کرکے آ جائیں گے پھر بازار تماشا کی
جس شے کو بھی ہاتھ لگائیں قیمت بہت زیادہ ہے

اس کی توجہ حاصل کی اور بیچ میں سب کچھ چھوڑ دیا
حکمت جتنی بھی ہو اس میں حماقت بہت زیادہ ہے

عشق ہے کس کو یاد کہ ہم تو ڈرتے ہی رہتے ہیں سدا
حسن وہ جیسا بھی ہے اس کی دہشت بہت زیادہ ہے

ایک چیز جو اپنی رسائی سے باہر ہے کہیں ظفرؔ
سچ پوچھو تو اس کی ہمیں ضرورت بہت زیادہ ہے

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here