yaqeen poetry in urdu
Explore the inspiring world of yaqeen poetry in urdu, where words become a source of strength and encouragement. These poems celebrate the power of faith, hope, and resilience, offering a beacon of light in life’s challenging moments. Also, read another poetry.
ہاتھوں میں میرے چاند ستارے نہیں تو کیا
دل میں ترے یقین کا روشن دیا تو ہے
وہ منزل مقصود پہ پہنچے گا یقیناً
جو راہ میں چلتا رہے بے خوف و خطر تیز
amazing yaqeen poetry in urdu
یہ معجزہ تھا یقیناً تری محبت کا
جو اوج فکر و تخیل مرے بیان میں تھا
جفا کا تیری طالب ہوں وفا ہے مدعا میرا
یقین نا مرادی پر بھی دیکھو حوصلہ میرا
مجھے یقین ہے تو شرط ہار جائے گا
کہ دسترس سے تری آسمان اونچا ہے
کرن کرن یقین جیسے راستے
دھواں دھواں گمان بن کے رہ گئے
سب سے یقین اٹھایا ہم نے دوست پڑوسی دن تاریخ
عید ملن کو گھر سے نکلے شور ماتم ہونے لگا
ہے یقیناً کچھ مگر واضح نہیں
آپ کی آنکھوں میں کیا موجود ہے
شب کی تنہائی سے پھر گھبرا گئے
پھر یقین ہم نے تمہارا کر لیا
اتنا یقین رکھ کہ گماں باقی رہے
ایک ذرا کار جہاں باقی رہے
حسین خواب نہ دے اب یقین سادہ دے
مرے وجود کو یا رب نیا لبادہ دے
یقین دعویٔ الفت نہیں مانا نہیں آتا
مگر یہ بھی تو ہے جھوٹوں کو جھٹلانا نہیں آتا
یقین کون کرے گا گماں پہ آیا ہوں
میں اپنے آپ سے چھپ کر یہاں پہ آیا ہوں
مرا یقین کہ دنیا میں ہوں اکیلا میں
صدائے دل مجھے کہتی ہے غم نشیں کوئی ہے
مجھے یقین دلا سب رہے گا ویسا ہی
جنون اہل خرابات کچھ نہیں کرے گا
چھین لے جو یقین کی توفیق
لازماً ایسے ہر گماں سے بچی
چھین لے جو یقین کی توفیق
لازماً ایسے ہر گماں سے بچیں
ہمیں یقین نہیں تھا خود اپنی رنگت پر
ہم اس زمیں کی ہتھیلی پہ رنگ کیا لاتے
اس پہ اتنا یقین ہے ہم کو
اس کو بیتاب ہو کے دیکھتے ہیں
yaqeen sad poetry in urdu
ہوائیں تیر کی مانند ہوں جب
یقین بال و پر دیوانگی ہے
کون مجھ پر یقین لائے گا
اپنی نظروں میں خود سراب ہوں میں
جس کو خلوص سمجھے ہوئے تھے وہ کیا ہوا
کتنا یقین تھا تمہیں دھوکا نہ کھاؤ گے
حال پوچھا اس نے مجھ سے بات کی
اب یقین آیا خدا موجود ہے
ہم یقیناً یہاں نہیں ہوں گے
غالباً زندگی رہے گی ابھی
یقین ہے کہ گماں ہے مجھے نہیں معلوم
یہ آگ ہے کہ دھواں ہے مجھے نہیں معلوم
مجھے تمہارے تیقن سے خوف آتا ہے
کہ اس یقین میں شامل گماں نہیں میرا
تمہاری بزم میں جس بات کا بھی چرچا تھا
مجھے یقین ہے اس میں نہ ذکر میرا تھا
نگاہ مست ساقی سے جو مے خواروں نے پی ہوتی
یقیناً حشر تک ان کو نہ پھر تشنہ لبی ہوتی
yaqeen poetry in urdu text
بے نشانیٔ محبت کو نشاں سے کیا غرض
اے یقین دل تجھے وہم و گماں سے کیا غرض
زاہدؔ بہ تقاضائے وفا طرح یقین پر
ہم کوشش تعمیر وطن کرتے رہیں گے
موسموں پر یقین کیوں چھوڑا
بد گمانی تو سائباں سے ہوئی
کر کے یقین پھر سے کہ میں مشکلوں میں ہوں
ٹھہرا نہیں وہ شخص دوبارہ گزر گیا
یقین ہے کہ ملے گا عروج ہم کو بھی
یقین ہے کہ ترا بھی زوال آئے گا
میں اب بھی شان سے زندہ ہوں شہر قاتل میں
مرے خدا کی یقیناً یہ مہربانی ہے
مالک ہی کے سخن میں تلون جو پائیے
کہئے یقین لائیے پھر کس کی بات کا
بس اس یقین پہ ہوتی ہیں لغزشیں اکثر
کہ رحمتوں کا بھی داتا ہے تو عذاب کے ساتھ
مشق سخن وہی ہے مشقت بھی ہے وہی
کیسے کروں یقین زمانہ بدل گیا
جلتا رہا چراغ یقین و گمان کا
لیکن ہوا نہ دور اندھیرا مکان کا
کل تاریخ یقیناً خود کو دہرائے گی
آج کے اک اک منظر کو پہچان میں رکھنا
حق الیقین کا نام عروج مقام ہے
پڑھتے ہیں اولیا سر دوش ہوا نماز
وہ اپنا چہرا اگر دکھائے یقین اندھوں کو خاک آئے
پکارتی ہے یہ بے حجابی کہ میں ازل سے حجاب میں ہوں
ہوا کے دوش پہ یہ جو سوار پانی ہے
مرا یقین کرو بے شمار پانی ہے
شکست عہد ستم پر یقین رکھتے ہیں
ہم انتہائے ستم کا گلا نہیں کرتے
گمان کے لیے نہیں یقین کے لیے نہیں
عجیب رزق خواب ہے زمین کے لیے نہیں
کیسے کھڑا ہوں کس کے سہارے کھڑا ہوں میں
اپنا یقین ہوں کہ ترا اعتبار ہوں
میں بے یقین ہوں ایسا کہ میرے ہاتھوں میں
تمام آیتیں سورج کی رائیگاں دیکھو
یقین دشت سے پھوٹے گا آب جو کی طرح
کہ حرف ”لا” کی گواہی بحال کر دیکھو
یقین کیسے کروں میں تمہاری باتوں کا
کہ قطرے اشک کے ہیں شعلگی کے چہرے پر
گمان تک میں نہ تھیں جبرئیل کے جو کبھی
وہ رفعتیں ہیں یقین آج آدمی کے لئے
وہ یقیناً راز اندر راز تھا لیکن اسے
ایک دن مجھ ناتواں پر منکشف ہونا پڑا
لوگ پا گئے حقیقتیں قیاس میں
ہم یقین سے گماں کی حد میں آ گئے
مجھے یقین ہے تیرے ہی سرخ گالوں نے
دھنک کو شوخ سا یہ رنگ دے دیا ہوگا
مجھے یقین ہے اعجاز لمس سے اک دن
وہ خار کو بھی شگفتہ گلاب کر دے گا
مجھ کو عطا کرتے وہ یقیناً میری طلب سے سوا لیکن
خودداری میں ہاتھ نہ پھیلا شرم جو دامن گیر ہوئی
ٹوٹ جائے گا یقیناً دل مے خوار اگر
نگۂ ساقئ میخانہ ذرا بھی بدلی
انسان تیری فتح پہ اب بھی یقین ہے
گو اپنی زندگی سے بھی گھبرا گئے ہیں ہم
مرے دل میں تخم یقین رکھ دے لچک تو شاخ مزاج کو
وہ چمن کھلا مرے باغباں جو چمن کوئی نہ کھلا سکا
یہ شوق سارے یقین و گماں سے پہلے تھا
میں سجدہ ریز نوائے اذاں سے پہلے تھا
جو ذکر آتا ہے آخرت کا تو آپ ہوتے ہیں صاف منکر
خدا کی نسبت بھی دیکھتا ہوں یقین رخصت گمان باقی
انہیں اسی بات پر یقین ہے کہ بس یہی اصل کار دیں ہے
اسی سی ہوگا فروغ قومی اسی سے چمکیں گے باپ دادے
کسی گمان کے صحرا میں کیسی خاک اڑی
کسی یقین کا پرتو ابھر گیا کیسا
برائی کچھ تو یقیناً ہے بے حجابی میں
مگر وہ فتنے جو زیر نقاب جاگتے ہیں
مجھے یقین ہے آندھی کوئی اٹھی ہے کہیں
کہ لو چراغ شبستاں کی تھرتھراتی ہے