65+ amazing rukhsar shayari in urdu

best rukhsar shayari in urdu

Rukhsar Shayari in urdu is a beautiful expression of emotions. Her words are simple, yet powerful. They explore love, hope, and life’s experiences. Reading her poetry is like connecting with your own heart. Also, read another best poetry.

یہ بوند خون کی لوح کتاب رخ کے لیے
یہ تل سر لب و رخسار دھرنے آئے ہیں

اے تیرے سبزۂ رخسار کی دلآویزی
نواح چشم سے آنسو گزر کے دیکھتے ہیں

رات نے گیسوؤں سے ان کے سیاہی لی ہے
ان کے رخسار سے سورج نے ضیا پائی ہے

چل پڑے گا پھر بیاں اک چاند سے رخسار کا
یاد پھر زلفوں کے پیچ و خم دلائے جائیں گے

Amazing Rukhsar Shayari in Urdu

کسی کی تابش رخسار کا کہو قصہ
کسی کے گیسوئے عنبر فشاں کی بات کرو

دیکھ گلشن میں آتشیں رخسار
داغ ہو جل گیا گل لالہ

نظر بھر دیکھ تیرے آتشیں رخسار اے گل رو
مرے دل کی برنگ قطرۂ شبنم گلی انکھیاں

کیا رنگ ہے تمہارے رخسار کا سریجن
جس پر نظر کرے سیں گل کا جگر پھٹا ہے

دائیں رخسار پہ آتش کی چمک وجہ جمال
بائیں رخسار کی آغوش میں خال اچھا ہے

رنگ رخسار پہ اتراؤ نہیں
جانے کب وقت اڑا کر لے جائے

کیا قصیدہ ترے رخسار کے تل کا یوں سمجھ
اک نگینہ ہے انگوٹھی میں جڑا رہتا ہے

اسے عجب تھا غرور شگفت رخساری
بہار گل کو بہت بے ہنر کہا اس نے

رخسار کے پرتو سے بجلی کی نئی دھج ہے
کیوں آنکھ جھپکتی ہے کیا سامنے سورج ہے

rukhsar shayari in urdu

زلف و لب و رخسار کسی کا ہے میرا موضوع سخن
تاریکی سے نور نظر تک ایک کہانی بیچ میں ہے

rukhsar poetry

بازار کی فصیل بھی رخسار پر ملے
دود چراغ جو کسی شوراب سے جلے

rukhsar shayari in urdu

سو دیکھ کر ترے رخسار و لب یقیں آیا
کہ پھول کھلتے ہیں گل زار کے علاوہ بھی

بوسہ دہی کا لطف ملا حسن بڑھ گیا
رخسار لال لال تمہارے ہوئے تو کیا

رخسار پر خط کا نشاں گل پر ہوا سبزہ عیاں
ہیں دونوں عارض دو چمن ایک اس طرف ایک اس طرف

وہ غزالوں سے ابھی سیکھ کے رم لوٹا ہے
بال ہیں دھول میں گم اور لب و رخسار پہ خاک

سوکھے لب پھیکے رخسار اور الجھے الجھے بال
شہروں میں بھی مل جاتے ہیں ویرانے کیا کیا

جانے کس دم نکل آئے ترے رخسار کی دھوپ
مدتوں دھیان ترے سایۂ در پر رکھا

صحن کے سبز اندھیرے میں دمکتے رخسار
صاف بستر کے اجالے میں چمکتے گیسو

وہی رخسار و چشم و لب ان کے
وہی بے چہرگی ہماری ہے

چشم و لب کیسے ہوں رخسار ہوں کیسے تیرے
ہم خیالوں میں بناتے رہے نقشے تیرے

rukhsar pe til poetry in urdu

مجھ سے کترا کے نکل جا مگر اے جان حیا
دل کی لو دیکھ رہا ہوں ترے رخساروں میں

قد و گیسو لب و رخسار کے افسانے چلے
آج محفل میں ترے نام پہ پیمانے چلے

قربت کاکل و رخسار سے جی تنگ نہیں
اک ذرا چین تو دے گردش دوراں یارو

لب و رخسار آتشیں اس کے
شبنمی رقص تھا شرارے پر

سارا منظر ہی بدل جائے گا احمدؔ دیکھنا
موسم رخسار و لب کو دیر ہوتی جائے گی

ہم سے رخسار وہ لب بھول گئے
زندگی کرنے کا ڈھب بھول گئے

شمع رخسار لیے گیسوئے خم دار لیے
سب اندھیروں میں اجالوں میں مرے پاس رہو

کھل گیا مصحف رخسار بتان مغرب
ہو گئے شیخ بھی حاضر نئی تفسیر کے ساتھ

پیکر شاہد ہستی میں ہے اک آنچ نئی
لذت دید اٹھا شعلۂ رخسار تو دیکھ

جن راتوں میں چاند ہو یا پھر چاند نہ ہو
یاد بہت اس کا رخسارا آتا ہے

تیرے لب و رخسار کے قصے تیرے قد و گیسو کی بات
ساماں ہم بھی رکھتے ہیں تنہائی میں دل بہلانے کا

چاندنی میں اے دل اک اک پھول سے
اپنے گل رخسار کی باتیں کریں

پھر مہک اٹھے فضائے زندگی
پھر گل و رخسار کی باتیں کریں

شعاع نور کے پھوٹے سے جاں لرزتی تھی
تمہاری گرمئ رخسار سے نکلتے ہوئے

عشق کی نرم نگاہی سے حنا ہوں رخسار
حسن وہ حسن جو دیکھے سے نکھرتا جائے

رخسار و لب کی تیری نہ کم ہوں گی رونقیں
میں ہر غزل میں ذکر ترا چھوڑ جاؤں گا

دل کی آگ جوانی کے رخساروں کو دہکائے ہے
بہے پسینہ مکھڑے پر یا سورج پگھلا جائے ہے

میں جن بہاروں کی پرورش کر رہا ہوں زندان غم میں ہمدم
کسی کے گیسو و چشم و رخسار و لب کی رنگیں حکایتیں ہیں

دستا ہے مجھ کو یار کا رخسار گل عذار
تس کی خوشی سوں طبع کو گل زار کر رکھوں

لطافت گلبن حسن جہاں آرا سمجھ اے دل
ہوا ہے زلف اور رخسار جاناں آشیاں میرا

سبز ہے پیرہن چاند کا آج پھر
رنگ رخسار ہے سرخ سا آج پھر

گیسو اسے کہتے ہیں رخسار اسے کہتے ہیں
سنبل اسے کہتے ہیں گلزار اسے کہتے ہیں

منہ زرد دوپٹے کے نہ آنچل سے چھپاؤ
ہو جائے نہ رنگ گل رخسار بسنتی

کھینچیں گے مرے آئینہ رخسار کی تصویر
دیکھے تو کوئی مانی و بہزاد کی صورت

اک اشک سر شوخیٔ رخسار میں گم ہے
آئینہ بھی اس حسن کے اسرار میں گم ہے

رنگ کے پہرے ہیں رخساروں کی آب و تاب پر
اور رنگوں کو ہیں زلفوں کی لٹیں جکڑے ہوئے

حاجت مشاطہ کیا رخسار روشن کے لیے
دیکھ لو گل کاٹتا ہے کون شمع طور کا

کس کے چمکے چاند سے رخسار قیصر باغ میں
چاندنی ہے سایۂ دیوار قیصر باغ میں

مرمریں جسم کا چرچا لب و رخسار کی بات
میری کوئی تو غزل ان کا سراپا ہوگی

چھو گئی کافر ہوا کس کی نگاہ گرم سے
پھول کملایا ہوا ہے کچھ گل رخسار کا

تیرے رخسار سے جب جب ہے گزرتے آنسو
جسم و جاں میں میرے جیسے ہے اترتے آنسو

Leave a Comment