80+ famous ibn e insha poetry in urdu

Table of Contents

Ibn e Insha poetry in Urdu

Ibn e Insha poetry in urdu, a legendary Pakistani poet, left an indelible mark on the world of Urdu literature. His poetry is a treasure trove of wisdom, humor, and insight into the human experience. With a unique blend of wit and sensitivity, In this blog, we’ll jump into the beauty and essence of Ibn e Insha’s Urdu poetry, exploring themes of love, life, and the human condition. Join us on this journey of charm and simplicity of his timeless words. Also, read another famous poet Shayari in urdu.

ibn e insha poetry in urdu

کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا

ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے
ہم ہنس دئیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ ترا

اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانا ترا

کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل ترے پربت ترے بستی تری صحرا ترا

ہم اور رسم بندگی آشفتگی افتادگی
احسان ہے کیا کیا ترا اے حسن بے پروا ترا

دو اشک جانے کس لیے پلکوں پہ آ کر ٹک گئے
الطاف کی بارش تری اکرام کا دریا ترا

اے بے دریغ و بے اماں ہم نے کبھی کی ہے فغاں
ہم کو تری وحشت سہی ہم کو سہی سودا ترا

ہم پر یہ سختی کی نظر ہم ہیں فقیر رہ گزر
رستہ کبھی روکا ترا دامن کبھی تھاما ترا

ہاں ہاں تری صورت حسیں لیکن تو ایسا بھی نہیں
اک شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا ترا

بے درد سننی ہو تو چل کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق ترا رسوا ترا شاعر ترا انشاؔ ترا

ibn e insha poetry in urdu

اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا
وہ شہر وہ کوچہ وہ مکاں یاد رہے گا

وہ ٹیس کہ ابھری تھی ادھر یاد رہے گی
وہ درد کہ اٹھا تھا یہاں یاد رہے گا

ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول بھی جائیں
وہ شمع فسردہ کا دھواں یاد رہے گا

ہاں بزم شبانہ میں ہمہ شوق جو اس دن
ہم تھے تری جانب نگراں یاد رہے گا

کچھ میرؔ کے ابیات تھے کچھ فیضؔ کے مصرعے
اک درد کا تھا جن میں بیاں یاد رہے گا

آنکھوں میں سلگتی ہوئی وحشت کے جلو میں
وہ حیرت و حسرت کا جہاں یاد رہے گا

جاں بخش سی اس برگ گل تر کی تراوت
وہ لمس عزیز دو جہاں یاد رہے گا

ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
تو یاد رہے گا ہمیں ہاں یاد رہے گا

famous ibn e insha poetry in urdu

جانے تو کیا ڈھونڈ رہا ہے بستی میں ویرانے میں
لیلیٰ تو اے قیس ملے گی دل کے دولت خانے میں

جنم جنم کے ساتوں دکھ ہیں اس کے ماتھے پر تحریر
اپنا آپ مٹانا ہوگا یہ تحریر مٹانے میں

محفل میں اس شخص کے ہوتے کیف کہاں سے آتا ہے
پیمانے سے آنکھوں میں یا آنکھوں سے پیمانے میں

کس کا کس کا حال سنایا تو نے اے افسانہ گو
ہم نے ایک تجھی کو ڈھونڈا اس سارے افسانے میں

اس بستی میں اتنے گھر تھے اتنے چہرے اتنے لوگ
اور کسی کے در پہ نہ پہنچا ایسا ہوش دوانے میں

دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشت طلب کی دھول میاں
ہم سے عجب ترا درد کا ناطہ دیکھ ہمیں مت بھول میاں

اہل وفا سے بات نہ کرنا ہوگا ترا اصول میاں
ہم کیوں چھوڑیں ان گلیوں کے پھیروں کا معمول میاں

یوں ہی تو نہیں دشت میں پہنچے یوں ہی تو نہیں جوگ لیا
بستی بستی کانٹے دیکھے جنگل جنگل پھول میاں

یہ تو کہو کبھی عشق کیا ہے جگ میں ہوئے ہو رسوا بھی؟
اس کے سوا ہم کچھ بھی نہ پوچھیں باقی بات فضول میاں

نصب کریں محراب تمنا دیدہ و دل کو فرش کریں
سنتے ہیں وہ کوئے وفا میں آج کریں گے نزول میاں

سن تو لیا کسی نار کی خاطر کاٹا کوہ نکالی نہر
ایک ذرا سے قصے کو اب دیتے کیوں ہو طول میاں

کھیلنے دیں انہیں عشق کی بازی کھلیں گے تو سیکھیں گے
قیسؔ کی یا فرہادؔ کی خاطر کھولیں کیا اسکول میاں

اب تو ہمیں منظور ہے یہ بھی شہر سے نکلیں رسوا ہوں
تجھ کو دیکھا باتیں کر لیں محنت ہوئی وصول میاں

انشاؔ جی کیا عذر ہے تم کو نقد دل و جاں نذر کرو
روپ نگر کے ناکے پر یہ لگتا ہے محصول میاں

اپنے ہم راہ جو آتے ہو ادھر سے پہلے
دشت پڑتا ہے میاں عشق میں گھر سے پہلے

چل دیے اٹھ کے سوئے شہر وفا کوئے حبیب
پوچھ لینا تھا کسی خاک بسر سے پہلے

عشق پہلے بھی کیا ہجر کا غم بھی دیکھا
اتنے تڑپے ہیں نہ گھبرائے نہ ترسے پہلے

جی بہلتا ہی نہیں اب کوئی ساعت کوئی پل
رات ڈھلتی ہی نہیں چار پہر سے پہلے

ہم کسی در پہ نہ ٹھٹکے نہ کہیں دستک دی
سیکڑوں در تھے مری جاں ترے در سے پہلے

چاند سے آنکھ ملی جی کا اجالا جاگا
ہم کو سو بار ہوئی صبح سحر سے پہلے

رات کے خواب سنائیں کس کو رات کے خواب سہانے تھے
دھندلے دھندلے چہرے تھے پر سب جانے پہچانے تھے

ضدی وحشی الہڑ چنچل میٹھے لوگ رسیلے لوگ
ہونٹ ان کے غزلوں کے مصرعے آنکھوں میں افسانے تھے

وحشت کا عنوان ہماری ان میں سے جو نار بنی
دیکھیں گے تو لوگ کہیں گے انشاؔ جی دیوانے تھے

یہ لڑکی تو ان گلیوں میں روز ہی گھوما کرتی تھی
اس سے ان کو ملنا تھا تو اس کے لاکھ بہانے تھے

ہم کو ساری رات جگایا جلتے بجھتے تاروں نے
ہم کیوں ان کے در پر اترے کتنے اور ٹھکانے تھے

ibn e insha famous poetry

عرش کے تارے توڑ کے لائیں کاوش لوگ ہزار کریں
میرؔ کی بات کہاں سے پائیں آخر کو اقرار کریں

آپ اسے حسن طلب مت سمجھیں نا کچھ اور شمار کریں
شعر اک میرؔ فقیر کا ہم جو آپ کے گوش گزار کریں

آج ہمارے گھر آیا لو کیا ہے جو تجھ پہ نثار کریں
الا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں

کب کی ہمارے عشق کی نوبت قیس سے آگے جا پہنچی
رسماً لوگ ابھی تک اس مرحوم کا ذکر اذکار کریں

درج چشم میں اشک کے موتی لے جانے ہیں ان کے حضور
چوکھا رنگ لہو کا دے کر اور انہیں شہوار کریں

دین و دل و جاں سب سرمایہ جس میں اپنا صرف ہوا
عشق یہ کاروبار نہیں کیا اور جو کاروبار کریں

جتنے بھی دل ریش ہیں اس کے سب کو نامے بھیج بلا
اس بے مہر وفا دشمن کی یادوں کا دربار کریں

دل کس کے تصور میں جانے راتوں کو پریشاں ہوتا ہے
یہ حسن طلب کی بات نہیں ہوتا ہے مری جاں ہوتا ہے

ہم تیری سکھائی منطق سے اپنے کو تو سمجھا لیتے ہیں
اک خار کھٹکتا رہتا ہے سینے میں جو پنہاں ہوتا ہے

پھر ان کی گلی میں پہنچے گا پھر سہو کا سجدہ کر لے گا
اس دل پہ بھروسا کون کرے ہر روز مسلماں ہوتا ہے

وہ درد کہ اس نے چھین لیا وہ درد کہ اس کی بخشش تھا
تنہائی کی راتوں میں انشاؔ اب بھی مرا مہماں ہوتا ہے

راز کہاں تک راز رہے گا منظر عام پہ آئے گا
جی کا داغ اجاگر ہو کر سورج کو شرمائے گا

شہروں کو ویران کرے گا اپنی آنچ کی تیزی سے
ویرانوں میں مست البیلے وحشی پھول کھلائے گا

ہاں یہی شخص گداز اور نازک ہونٹوں پر مسکان لیے
اے دل اپنے ہاتھ لگاتے پتھر کا بن جائے گا

دیدہ و دل نے درد کی اپنے بات بھی کی تو کس سے کی
وہ تو درد کا بانی ٹھہرا وہ کیا درد بٹائے گا

تیرا نور ظہور سلامت اک دن تجھ پر ماہ تمام
چاند نگر کا رہنے والا چاند نگر لکھ جائے گا

دل سی چیز کے گاہک ہوں گے دو یا ایک ہزار کے بیچ
انشاؔ جی کیا مال لیے بیٹھے ہو تم بازار کے بیچ

پینا پلانا عین گنہ ہے جی کا لگانا عین ہوس
آپ کی باتیں سب سچی ہیں لیکن بھری بہار کے بیچ

اے سخیو اے خوش نظرو یک گونہ کرم خیرات کرو
نعرہ زناں کچھ لوگ پھریں ہیں صبح سے شہر نگار کے بیچ

خار و خس و خاشاک تو جانیں ایک تجھی کو خبر نہ ملے
اے گل خوبی ہم تو عبث بدنام ہوئے گلزار کے بیچ

منت قاصد کون اٹھائے شکوہ دریاں کون کرے
نامۂ شوق غزل کی صورت چھپنے کو دو اخبار کے بیچ

ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں
آج یہاں کل اور نگر میں صبح کہاں اور شام کہاں

ہم سے بھی پیت کی بات کرو کچھ ہم سے بھی لوگو پیار کرو
تم تو پریشاں ہو بھی سکو گے ہم کو یہاں پہ دوام کہاں

سانجھ سمے کچھ تارے نکلے پل بھر چمکے ڈوب گئے
امبر امبر ڈھونڈ رہا ہے اب انہیں ماہ تمام کہاں

دل پہ جو بیتے سہہ لیتے ہیں اپنی زباں میں کہہ لیتے ہیں
انشاؔ جی ہم لوگ کہاں اور میرؔ کا رنگ کلام کہاں

ibn e insha ghazal

جلوہ نمائی بے پروائی ہاں یہی ریت جہاں کی ہے
کب کوئی لڑکی من کا دریچہ کھول کے باہر جھانکی ہے

آج مگر اک نار کو دیکھا جانے یہ نار کہاں کی ہے
مصر کی مورت چین کی گڑیا دیوی ہندوستاں کی ہے

مکھ پر روپ سے دھوپ کا عالم بال اندھیری شب کی مثال
آنکھ نشیلی بات رسیلی چال بلا کی بانکی ہے

انشاؔ جی اسے روک کے پوچھیں تم کو تو مفت ملا ہے حسن
کس لیے پھر بازار وفا میں تم نے یہ جنس گراں کی ہے

ایک ذرا سا گوشہ دے دو اپنے پاس جہاں سے دور
اس بستی میں ہم لوگوں کو حاجت ایک مکاں کی ہے

اہل خرد تادیب کی خاطر پاتھر لے لے آ پہنچے
جب کبھی ہم نے شہر غزل میں دل کی بات بیاں کی ہے

ملکوں ملکوں شہروں شہروں جوگی بن کر گھوما کون
قریہ بہ قریہ صحرا بہ صحرا خاک یہ کس نے پھانکی ہے

ہم سے جس کے طور ہوں بابا دیکھو گے دو ایک ہی اور
کہنے کو تو شہر کراچی بستی دل زدگاں کی ہے

رات کے خواب سنائیں کس کو رات کے خواب سہانے تھے
دھندلے دھندلے چہرے تھے پر سب جانے پہچانے تھے

ضدی وحشی الہڑ چنچل میٹھے لوگ رسیلے لوگ
ہونٹ ان کے غزلوں کے مصرعے آنکھوں میں افسانے تھے

وحشت کا عنوان ہماری ان میں سے جو نار بنی
دیکھیں گے تو لوگ کہیں گے انشاؔ جی دیوانے تھے

یہ لڑکی تو ان گلیوں میں روز ہی گھوما کرتی تھی
اس سے ان کو ملنا تھا تو اس کے لاکھ بہانے تھے

ہم کو ساری رات جگایا جلتے بجھتے تاروں نے
ہم کیوں ان کے در پر اترے کتنے اور ٹھکانے تھے

ہم ان سے اگر مل بیٹھے ہیں کیا دوش ہمارا ہوتا ہے
کچھ اپنی جسارت ہوتی ہے کچھ ان کا اشارا ہوتا ہے

کٹنے لگیں راتیں آنکھوں میں دیکھا نہیں پلکوں پر اکثر
یا شام غریباں کا جگنو یا صبح کا تارا ہوتا ہے

ہم دل کو لیے ہر دیس پھرے اس جنس کے گاہک مل نہ سکے
اے بنجارو ہم لوگ چلے ہم کو تو خسارا ہوتا ہے

دفتر سے اٹھے کیفے میں گئے کچھ شعر کہے کچھ کافی پی
پوچھو جو معاش کا انشاؔ جی یوں اپنا گزارا ہوتا ہے

ابن انشا
کس کو پار اتارا تم نے کس کو پار اتارو گے
ملاحو تم پردیسی کو بیچ بھنور میں مارو گے

منہ دیکھے کی میٹھی باتیں سنتے اتنی عمر ہوئی
آنکھ سے اوجھل ہوتے ہوتے جی سے ہمیں بسارو گے

آج تو ہم کو پاگل کہہ لو پتھر پھینکو طنز کرو
عشق کی بازی کھیل نہیں ہے کھیلو گے تو ہارو گے

اہل وفا سے ترک تعلق کر لو پر اک بات کہیں
کل تم ان کو یاد کرو گے کل تم انہیں پکارو گے

ان سے ہم سے پیار کا رشتہ اے دل چھوڑو بھول چکو
وقت نے سب کچھ میٹ دیا ہے اب کیا نقش ابھارو گے

انشاؔ کو کسی سوچ میں ڈوبے در پر بیٹھے دیر ہوئی
کب تک اس کے بخت کے بدلے اپنے بال سنوارو گے

Leave a Comment