70 famous muneer niyazi shayari in urdu

muneer niyazi shayari in urdu

Muneer Niyazi Shayari in urdu was a talented poet who wrote beautiful Urdu couplets that touched our hearts. His poetry is a window into the human experience, exploring love, loss, and life. In this blog post, we’ll share some of his most inspiring poems and explore what makes his writing so special. Join us as we celebrate the power of his words!Also read another best poetry.

muneer niyazi shayari in urdu

آ گئی یاد شام ڈھلتے ہی
بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی

کھل گئے شہر غم کے دروازے
اک ذرا سی ہوا کے چلتے ہی

کون تھا تو کہ پھر نہ دیکھا تجھے
مٹ گیا خواب آنکھ ملتے ہی

خوف آتا ہے اپنے ہی گھر سے
ماہ شب تاب کے نکلتے ہی

تو بھی جیسے بدل سا جاتا ہے
عکس دیوار کے بدلتے ہی

خون سا لگ گیا ہے ہاتھوں میں
چڑھ گیا زہر گل مسلتے ہی

muneer niyazi shayari in urdu

خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے

گیا تو اس طرح گیا کہ مدتوں نہیں ملا
ملا جو پھر تو یوں کہ وہ ملال میں ملا مجھے

تمام علم زیست کا گزشتگاں سے ہی ہوا
عمل گزشتہ دور کا مثال میں ملا مجھے

ہر ایک سخت وقت کے بعد اور وقت ہے
نشاں کمال فکر کا زوال میں ملا مجھے

نہال سبز رنگ میں جمال جس کا ہے منیرؔ
کسی قدیم خواب کے محال میں ملا مجھے

muneer niyazi shayari in urdu

بے خیالی میں یوں ہی بس اک ارادہ کر لیا
اپنے دل کے شوق کو حد سے زیادہ کر لیا

جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا

غیر سے نفرت جو پا لی خرچ خود پر ہو گئی
جتنے ہم تھے ہم نے خود کو اس سے آدھا کر لیا

شام کے رنگوں میں رکھ کر صاف پانی کا گلاس
آب سادہ کو حریف رنگ بادہ کر لیا

ہجرتوں کا خوف تھا یا پر کشش کہنہ مقام
کیا تھا جس کو ہم نے خود دیوار جادہ کر لیا

ایک ایسا شخص بنتا جا رہا ہوں میں منیرؔ
جس نے خود پر بند حسن و جام و بادہ کر لیا

غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا
یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں

ہر طرف دیوار و در اور ان میں آنکھوں کے ہجوم
کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لب گویا نہیں

جرم آدم نے کیا اور نسل آدم کو سزا
کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں

جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیرؔ
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں

اپنا تو یہ کام ہے بھائی دل کا خون بہاتے رہنا
جاگ جاگ کر ان راتوں میں شعر کی آگ جلاتے رہنا

اپنے گھروں سے دور بنوں میں پھرتے ہوئے آوارہ لوگو
کبھی کبھی جب وقت ملے تو اپنے گھر بھی جاتے رہنا

رات کے دشت میں پھول کھلے ہیں بھولی بسری یادوں کے
غم کی تیز شراب سے ان کے تیکھے نقش مٹاتے رہنا

خوشبو کی دیوار کے پیچھے کیسے کیسے رنگ جمے ہیں
جب تک دن کا سورج آئے اس کا کھوج لگاتے رہنا

تم بھی منیرؔ اب ان گلیوں سے اپنے آپ کو دور ہی رکھنا
اچھا ہے جھوٹے لوگوں سے اپنا آپ بچاتے رہنا

اپنے گھر کو واپس جاؤ رو رو کر سمجھاتا ہے
جہاں بھی جاؤں میرا سایہ پیچھے پیچھے آتا ہے

اس کو بھی تو جا کر دیکھو اس کا حال بھی مجھ سا ہے
چپ چپ رہ کر دکھ سہنے سے تو انساں مر جاتا ہے

مجھ سے محبت بھی ہے اس کو لیکن یہ دستور ہے اس کا
غیر سے ملتا ہے ہنس ہنس کر مجھ سے ہی شرماتا ہے

کتنے یار ہیں پھر بھی منیرؔ اس آبادی میں اکیلا ہے
اپنے ہی غم کے نشے سے اپنا جی بہلاتا ہے

munir niazi famous ghazals

چمن میں رنگ بہار اترا تو میں نے دیکھا
نظر سے دل کا غبار اترا تو میں نے دیکھا

میں نیم شب آسماں کی وسعت کو دیکھتا تھا
زمیں پہ وہ حسن زار اترا تو میں نے دیکھا

گلی کے باہر تمام منظر بدل گئے تھے
جو سایۂ کوئے یار اترا تو میں نے دیکھا

خمار مے میں وہ چہرہ کچھ اور لگ رہا تھا
دم سحر جب خمار اترا تو میں نے دیکھا

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

جو مجھے بھلا دیں گے میں انہیں بھلا دوں گا
سب غرور ان کا میں خاک میں ملا دوں گا

دیکھتا ہوں سب شکلیں سن رہا ہوں سب باتیں
سب حساب ان کا میں ایک دن چکا دوں گا

روشنی دکھا دوں گا ان اندھیر نگروں میں
اک ہوا ضیاؤں کی چار سو چلا دوں گا

بے مثال قریوں کے بے کنار باغوں کے
اپنے خواب لوگوں کے خواب میں دکھا دوں گا

میں منیرؔ جاؤں گا ایک دن اسے ملنے
اس کے در پہ جا کے میں ایک دن صدا دوں گا

بیٹھ جاتا ہے وہ جب محفل میں آ کے سامنے
میں ہی بس ہوتا ہوں اس کی اس ادا کے سامنے

تیز تھی اتنی کہ سارا شہر سونا کر گئی
دیر تک بیٹھا رہا میں اس ہوا کے سامنے

رات اک اجڑے مکاں پر جا کے جب آواز دی
گونج اٹھے بام و در میری صدا کے سامنے

وہ رنگیلا ہاتھ میرے دل پہ اور اس کی مہک
شمع دل بجھ سی گئی رنگ حنا کے سامنے

میں تو اس کو دیکھتے ہی جیسے پتھر ہو گیا
بات تک منہ سے نہ نکلی بے وفا کے سامنے

یاد بھی ہیں اے منیرؔ اس شام کی تنہائیاں
ایک میداں اک درخت اور تو خدا کے سامنے

تجھ سے بچھڑ کر کیا ہوں میں اب باہر آ کر دیکھ
ہمت ہے تو میری حالت آنکھ ملا کر دیکھ

شام ہے گہری تیز ہوا ہے سر پہ کھڑی ہے رات
رستہ گئے مسافر کا اب دیا جلا کر دیکھ

دروازے کے پاس آ آ کر واپس مڑتی چاپ
کون ہے اس سنسان گلی میں پاس بلا کر دیکھ

شاید کوئی دیکھنے والا ہو جائے حیران
کمرے کی دیواروں پر کوئی نقش بنا کر دیکھ

تو بھی منیرؔ اب بھرے جہاں میں مل کر رہنا سیکھ
باہر سے تو دیکھ لیا اب اندر جا کر دیکھ

ہیں رواں اس راہ پر جس کی کوئی منزل نہ ہو
جستجو کرتے ہیں اس کی جو ہمیں حاصل نہ ہو

دشت نجد یاس میں دیوانگی ہو ہر طرف
ہر طرف محمل کا شک ہو پر کہیں محمل نہ ہو

وہم یہ تجھ کو عجب ہے اے جمال کم نما
جیسے سب کچھ ہو مگر تو دید کے قابل نہ ہو

وہ کھڑا ہے ایک باب علم کی دہلیز پر
میں یہ کہتا ہوں اسے اس خوف میں داخل نہ ہو

چاہتا ہوں میں منیرؔ اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو

munir niazi 2 lines poetry

ڈر کے کسی سے چھپ جاتا ہے جیسے سانپ خزانے میں
زر کے زور سے زندہ ہیں سب خاک کے اس ویرانے میں

جیسے رسم ادا کرتے ہوں شہروں کی آبادی میں
صبح کو گھر سے دور نکل کر شام کو واپس آنے میں

نیلے رنگ میں ڈوبی آنکھیں کھلی پڑی تھیں سبزے پر
عکس پڑا تھا آسمان کا شاید اس پیمانے میں

دبی ہوئی ہے زیر زمیں اک دہشت گنگ صداؤں کی
بجلی سی کہیں لرز رہی ہے کسی چھپے تہہ خانے میں

دل کچھ اور بھی سرد ہوا ہے شام شہر کی رونق سے
کتنی ضیا بے سود گئی شیشے کے لفظ جلانے میں

میں تو منیرؔ آئینے میں خود کو تک کر حیران ہوا
یہ چہرہ کچھ اور طرح تھا پہلے کسی زمانے میں

ابھی مجھے اک دشت صدا کی ویرانی سے گزرنا ہے
ایک مسافت ختم ہوئی ہے ایک سفر ابھی کرنا ہے

گری ہوئی دیواروں میں جکڑے سے ہوئے دروازوں کی
خاکستر سی دہلیزوں پر سرد ہوا نے ڈرنا ہے

ڈر جانا ہے دشت و جبل نے تنہائی کی ہیبت سے
آدھی رات کو جب مہتاب نے تاریکی سے ابھرنا ہے

یہ تو ابھی آغاز ہے جیسے اس پنہائے حیرت کا
آنکھ نے اور سنور جانا ہے رنگ نے اور نکھرنا ہے

جیسے زر کی پیلاہٹ میں موج خون اترتی ہے
زہر زر کے تند نشے نے دیدہ و دل میں اترنا ہے

ابھی مجھے اک دشت صدا کی ویرانی سے گزرنا ہے
ایک مسافت ختم ہوئی ہے ایک سفر ابھی کرنا ہے

گری ہوئی دیواروں میں جکڑے سے ہوئے دروازوں کی
خاکستر سی دہلیزوں پر سرد ہوا نے ڈرنا ہے

ڈر جانا ہے دشت و جبل نے تنہائی کی ہیبت سے
آدھی رات کو جب مہتاب نے تاریکی سے ابھرنا ہے

یہ تو ابھی آغاز ہے جیسے اس پنہائے حیرت کا
آنکھ نے اور سنور جانا ہے رنگ نے اور نکھرنا ہے

جیسے زر کی پیلاہٹ میں موج خون اترتی ہے
زہر زر کے تند نشے نے دیدہ و دل میں اترنا ہے

Leave a Comment