tanhai poetry in Urdu
Urdu poetry has a special theme called tanhai poetry in Urdu which means feeling alone. This blog is a simple guide to understanding tanhai poetry. Tanhai’s poetry helps us realize that feeling alone is normal and that many others feel the same way. It’s like having a friend who understands our feelings when we’re going through tough times.
So, let’s dive into the world of tanhai poetry and see how it teaches us to appreciate our alone time and understand ourselves better. Join us on this journey of discovering the beauty of solitude in simple words.Also read another beautiful matlabi poetry:
سنتا ہوگا صدائیں اس دل کی
شام تنہائی میں وہ جب ہوگا
اک الگ تہذیب ہے تنہائیوں کے شہر کی
ایک ہی عالم ہمیشہ اور کوئی موسم نہیں
یہ کیا کہ تنہائیوں سے رشتہ بنا کے خود کو گنوا لیا ہے
سما کے مجھ میں جو آپ میرا جمال ہوتے کمال ہوتے
لوگ تنہائی کا کس درجہ گلا کرتے ہیں
اور فن کار تو تنہا ہی رہا کرتے ہیں
کبھی تنہائی کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کا
پیام اچھا نہیں لگتا سلام اچھا نہیں لگتا
tanhai poetry in urdu
ہو جائے گی جب تم سے شناسائی ذرا اور
بڑھ جائے گی شاید مری تنہائی ذرا اور
خود ہی تنہائیوں میں چلاؤں
خود ہی سوچوں یہ شور سا کیا ہے
ارمان تھا تمہیں کو کہ سب ساتھ میں رہیں
اب تم ہی کہہ رہے ہو کہ تنہائی چاہیئے
تنہائی میں رہ کر بھی تنہا نہیں ہوتے ہم
تنہائی میں یادوں کی جب چلتی ہے پروائی
ہے گوشۂ تنہائی منظور مجھے بیخودؔ
اس بزم میں جانا تو جی اور جلانا ہے
اس کی محفل سے مجھے اب کوئی نسبت ہی نہیں
ہے مری تنہائیوں کا سلسلہ اپنی جگہ
فاصلے تھے نہ جدائی تھی نہ تنہائی تھی
تیری قربت کا وہ لمحہ بھی غزل جیسا تھا
داناؔ وہ اب بھی آتا ہے تنہائیوں میں یاد
دنیا کی بھیڑ میں جو بچھڑ کر نہیں ملا
سرخ رو ہو گئیں تنہائیاں میری داناؔ
اس نے کاندھے پہ مرے دست حنا رکھا ہے
tanhai poetry in urdu 2 lines
میری تنہائی بڑھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
ہنس تالاب پہ آتے ہیں چلے جاتے ہیں
اگر بجھنے لگیں ہم تو ہوائے شام تنہائی
کسی محراب میں جا کر ہمیں دوبارہ رکھتی ہے
تنہائی سے تھی میری ملاقات آخری
رویا اور اس کے بعد میں گھر سے نکل گیا
یہ سمت سمت تخاطب افق افق تقریر
ترا کلام ہے میرا رفیق تنہائی
مرے مہ و سال کی کہانی کی دوسری قسط اس طرح ہے
جنوں نے رسوائیاں لکھی تھیں خرد نے تنہائیاں لکھی ہیں
مجھے تنہائی کے غم سے بچا لیتے تو اچھا تھا
سفر میں ہم سفر اپنا بنا لیتے تو اچھا تھا
ایک مدت سے ہے لوگوں کو نعیمیؔ کی تلاش
قصر تنہائی کی دیواریں گرا کر دیکھو
مجھ کو تنہائی میں سننا بیٹھ کر
مطرب لمحات وجدانی ہوں میں
شب کی تنہائی سے پھر گھبرا گئے
پھر یقین ہم نے تمہارا کر لیا
تنہائی میں محسوس ہوا ہے مجھے اکثر
جیسے مرے اندر سے کوئی بول رہا ہے
dard e tanhai shayari in urdu
گھر کی تنہائی سے کیوں اتنے پریشاں ہو ضیاؔ
آؤ اک بت کے حوالے سے بسر رات کریں
خوشا ساتھی وہ پچھلے موسموں کے
یہ تنہائی کا عالم کھل رہا ہے
مجھے کھلتی نہیں تنہائی سفر کی یوں بھی
گفتگو کرتے ہیں سب راہ کے پتھر مجھ سے
دل کی تنہائیوں کا مداوا نہیں
گھوم کر ہم نے دیکھے ہیں میلے بہت
تم تو اے خوشبو ہواؤ اس سے مل کر آ گئیں
ایک ہم تھے زخم تنہائی ہرا کرتے رہے
tanhai poetry in urdu copy paste
تنہائی بھی سناٹے بھی دل کو ڈستے جاتے ہیں
رہ گیرو کس دیس میں آ کر ہم نے آج قیام کیا
شاعری جام اور تنہائی
ہجر کی شب میں اور کیا ہوگا
آنسوؤں سے تر بہ تر ہو جائے گا آنگن تمام
کرب تنہائی پہ اپنے پھوٹ کر روئے گی رات
تنہائی سے گھبرا کر ہم کیا کیا شکوے کرتے تھے
لیکن جب سے آپ ملے ہیں دوست ہوا بیگانہ بھی
جب بھی تنہائی کبھی ہوتی ہے حاصل مجھ کو
وقت رکھ دیتا ہے میرے ہی مقابل مجھ کو
اتر چکا ہے رگ جاں میں زہر تنہائی
اسے بھی فرصت چارہ گری ملی بھی تو کب
tanhai poetry in urdu text
تنہائی جب آئینہ دکھلاتی ہے
اپنی ذات کا پہروں نظارہ کرتا ہوں
وہ بے پناہ خوف جو تنہائیوں میں تھا
دل کی تمام انجمن آرائیوں میں تھا
اس کے حضور شکر بھی آساں نہیں اداؔ
وہ جو قریب جاں مری تنہائیوں میں تھا
دل ہے الگ مزاج کے دو بھائیوں کا گھر
لگتا ہے صرف مجھ کو یہ تنہائیوں کا گھر
کھڑا میلے میں اکثر سوچتا ہوں
مرے اندر تو تنہائی بہت ہے
گونجتے رہتے ہیں تنہائی میں بھی دیوار و در
کیا صدا اس نے مجھے دی تھی کہ گھر میں رہ گئی
تمام عمر کی تنہائی کی سزا دے کر
تڑپ اٹھا مرا منصف بھی فیصلہ دے کر
قید تنہائی میں کیا آئے گی کوئی آواز
بیٹھ کر اپنی ہی زنجیر ہلایا کیجے
سسکیوں نے چار سو دیکھا کوئی ڈھارس نہ تھی
ایک تنہائی تھی اس کی گود میں سر رکھ لیا
رہ کر الگ بھی ساتھ رہا ہے کوئی خیال
تنہائی میں بھی خود پہ نگہبانیاں ملیں
ذرا دیر بیٹھے تھے تنہائی میں
تری یاد آنکھیں دکھانے لگی
اب ٹوٹنے ہی والا ہے تنہائی کا حصار
اک شخص چیختا ہے سمندر کے آر پار
دیوار و در پہ خوشبو کے ہالے بکھر گئے
تنہائی کے فرشتوں نے چومی قبائے یار
دریا کی وسعتوں سے اسے ناپتے نہیں
تنہائی کتنی گہری ہے اک جام بھر کے دیکھ