14 August poetry in Urdu 2 lines
Welcome, everyone! Today, we share 14 August poetry in Urdu 2 lines that capture the essence of 14 August, Pakistan’s Independence Day, in just two lines. These poems are like tiny windows into the big feelings we have for our country. Let’s explore together how poets express love, pride, and hope for Pakistan in a few simple words. Also, read another Courius poetry:
اپنا میعار ہے شاہوں سے بغاوت کرنا
الجھتا ہوں فقط وطن کے غدارں سے
ہم تو مٹ جائیں گے اس ارض وطن کے لئے
لیکن تم کو رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک
ہر کسی کو میسر نہیں شہادت کا رتبہ
یہ عزم ہے اپنی مٹی کے لیے قربان ہونے والوں کا
اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں
زندگی ہوش میں ہے جوش ہے دیوانوں میں
یا اللہ ہمارے ملک کی حفاظت فرما
اس کی طرف اٹھنے والی ہر بری نظر کو نیست و نابود کردے
آمین ثم آمین
چاند روشن چمکتا ستارہ رہے
سب سے اونچا یہ پرچم ہمارا رہے
جشن آزادی منانے والوں اتنے ہی پرچم خریدنا جن کی تعظیم کرسکو
یہ شھید کے جسم کی زینت ہوتا ہے کوڑے یا کچرے کے ڈھیر کے نہیں
یہ دن ہمیں ان اذیتوں اور ان جدوجہد کی یاد دلاتا ہے
جو ہمارے آباؤ اجداد نے ہمیں آج کی آزادی فراہم کرنے کے لئے کی
14 august poetry in urdu 2 lines
ہم اپنے وطن سے کتنا عشق کرتے ہیں یہ تمھیں دکھلائیں گے
وقت آنے پر دشمن کو مٹی میں ملائیں گے
ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮔﺮ ﮐﺮ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺩﻋﺎ
ﻣﯿﺮﮮ ﻭﻃﻦ ﮐﻮ ﺳﻼﻣﺖ ﺭکھنا ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻟﻠﮧ
آمین
برباد کر دیا ہمیں پردیس نے مگر
ماں سب سے کہہ رہی ہے کہ بیٹا مزے میں ہے
وطن کا عشق رگوں میں دوڑ رہا ہے
جبھی تو دشمن اپنے ارادے چھوڑ رہا ہے
میری ہر نسل تجھ پر قربان
اے میرے پیارے وطن
آزادی کی کبھی شام ہو نے نہیں دیں گے
شہیدوں کی قربانی بدنام ہونے نہیں دیں گے
اے وطن ہم اہل وطن ہیں
جو زمانے والے نہیں کہتے وقت آئے تو ثابت کرتے ہیں
azadi poetry in urdu text
یوں ہی نہیں ملتی یہ رنگ برنگی وردی
کلیجہ کاٹ کے اپنوں کو بھلانا پڑتا ہے
جو ماں اپنے بیٹے کو وطن پر قربان کرتی ہے
وطن کی فضائیں انہیں سلام کرتی ہیں
ثبوت کیا دوں تجھے اپنے وطن پرستی کا اے ظالم
پانی نا ہو تو وضو بھی اسی مٹی سے کرتے ہیں
ہے جرم اگر وطن کی مٹی سے محبت
تو یہ جرم سدا میرے حسابوں میں رہے گا
کتنے شہیدوں نے اپنا لہو اس زمین پر بہایا ہے
تب جاکے یہ وطن وجود میں آیا ہے
ہم تو مٹ جائیں گے اس ارض وطن کے لئے
لیکن تم کو رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک
وہ لوگ جنہوں نے خون دے کر چمن کو زینت بخشی ہے
دو چار سے دنیا واقف ہے گمنام نجانے کتنے ہیں
pakistan love poetry in urdu
وطن کی آبرو رکھنا ہے ہماے خون میں شامل
یہ کس نے کہہ دیا کی وفادار نہیں ہم
میں خود غرض نہیں میرے آنسو پرکھ کر دیکھو
مجھے فکر چمن ہے غم آشیاں انہیں
ہوگا مشہور حسن شہزادوں کا زمانے میں
مگر پہن کر وردی ہم بھی کمال لگتے ہیں
ہم اس وطن کے لیے جان کی بازی بھی لگا دیں گے
وطن کے دشمن کو مٹی میں ملا دیں گے
بروز حشر پوچھیں گے کیا لے کر آئے ہو میاں
ادب سے عرض کروں گا وطن پر مٹ آیا ہوں
انشاء اللہ
کسی کی ہمت ہے ہماری پرواز میں لائے کمی
ہم پروازوں سے نہیں حوصلوں سے اُڑا کرتے ہیں
ہم اپنے وطن کے لیے مشکل سے مشکل کام بھی کر دکھائیں گے
ہم جان کی بازی لگا کر اپنے پرچم کو سب سے اول دکھلائیں گے
لوگ کہتے ہیں ہم لیتے ہیں معاوضہ
بھلا بتاؤ لہو بھی کہی بکتا ہے کیا؟
14 august poetry in urdu text
کھڑے تھے ہم بھی قسمت کے دروازے پر
لوگ دولت پر گرے اور ہم نے وطن مانگ لیا
ہم اپنے وطن سے کتنا عشق کرتے ہیں یہ تمھیں دکھلائیں گے
وقت آنے پر دشمن کو مٹی میں ملائیں گے
ہم تو مٹ جائیں گے اس ارض وطن کے لئے
لیکن تم کو رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک
کھڑے تھے ہم بھی قسمت کے دروازے پر
لوگ دولت پر گرے اور ہم نے وطن مانگ لیا
پردیس کا دکھ تم کیا جانو دیس والو
ہم تو اپنے گھر بھی جاتے ہے مہمان بن کر
اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں
زندگی ہوش میں ہے جوش ہے دیوانوں میں
یہ دن ہمیں ان اذیتوں اور ان جدوجہد کی یاد دلاتا ہے
جو ہمارے آباؤ اجداد نے ہمیں آج کی آزادی فراہم کرنے کے لئے کی
زندگی سے کیا لینا ہے شہادت ہے تن اپنا
سرحدوں پر دفن ہو گئے وردی ہیں کفن اپنا
ہم تو مٹ جائیں گے اس ارض وطن کے لئے
لیکن تم کو رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک
دعوی جو کرتا تھا گلستاں کی حفاظت کا
اسی نے تو ہر شاخ چمن کو نوچ رکھا ہے
مجھے سینے سے لگا لینا اے ارض وطن
میں اپنی ماں کی بانہوں کو ترستا چھوڑ آیا ہوں
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کر
اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کر
ہم کو وطن میں اب کوئی پہچانتا نہیں
اپنے وطن میں پھرتے ہیں اب اجنبی سے ہم
تھی آرزو چمن کی اور اب دل قفس میں ہے
اک اجنبی سے آئے ہوئے ہیں وطن میں ہم
اے اہل وطن! کھاؤ پیو شوق سے لیکن
کھیلو نہ کبھی سر سے کبھی منہ سے نہ بولو
اے اہل وطن! کھاؤ پیو شوق سے لیکن
کھیلو نہ کبھی سر سے کبھی منہ سے نہ بولو
دامن کی فکر ہے نہ گریباں کی فکر ہے
اہل وطن کو فتنۂ دوراں کی فکر ہے
ساکن ہے کوئی اور وطن اور کسی کا
یہ روح کسی کی ہے بدن اور کسی کا
نہ دشمنوں سے وطن میں رہا کبھی محفوظ
جلا وطن ہوں تو لگتی ہے زندگی محفوظ
دل بھی کھو گیا شاید شہر کے سرابوں میں
اب مری طرح سے ہے درد بے وطن میرا
اس کو معلوم نہیں اپنے وطن کی سرحد
یہ پرندہ ابھی نادان نظر آتا ہے
کن منزلوں لٹے ہیں محبت کے قافلے
انساں زمیں پہ آج غریب الوطن سا ہے