jaun elia sad poetry in urdu
Let’s talk about Jaun Elia sad poetry in Urdu that makes you feel deeply, that sadly touches your heart. Jaun Elia, a famous poet, wrote much of this poetry in Urdu. His words are like a hug for your sadness, helping you understand that it’s okay to feel down sometimes. Join me as we start our journey into the world of Jaun Elia’s sad poetry, where every word is a friend in tough times. Also, read another amazing piece of poetry:
حاصل کن ہے یہ جہان خراب
یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں
ہائے وہ اس کا موج خیز بدن
میں تو پیاسا رہا لب جو بھی
بے گلہ ہوں میں اب بہت دن سے
وہ پریشان ہو گئی ہوگی
گلہ ہے ایک گلی سے شہردل کی
میں لڑتاپھر رہا ہوں شہر بھر سے
ہاں دوا دو مگر یہ بتلا دو
مجھے آرام تو نہیں ہو گا
وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں
آخرمیرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی
تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا
jaun elia sad poetry in urdu
کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں
اس کی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجئے عمر گزار دی گئی
مجھ سے بچھڑ کر بھی وہ لڑکی کتنی خوش خوش رہتی ہے
اس لڑکی نے مجھ سے بچھڑ کر مر جانے کی ٹھانی تھی
آج بہت دن بعد میں اپنے کمرے تک آ نکلا تھا
جوں ہی دروازہ کھولا ہے اس کی خوشبو آئی ہے
کیا میں آنگن میں چھوڑ دوں سونا
جی جلائے گی چاندنی کب تک
ملتے رہیے اسی تپاک کے ساتھ
بیوفائی کی انتہا کیجے
اب وہ شرارتوں کے زمانے گزر گئے
چونکے گا کون کس کو ڈرایا کریں گی آپ
زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے
بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کریں ہم
کیا کہا عشق جاودانی ہے
آخری بار مل رہی ہو کیا
سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
آدمی آدمی کو بھول گیا
ہم نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں
درد بھیجو نہ تم دوا بھیجو
میں تمہارے ہی دم سے زندہ ہوں
مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو
تم کو جہان شوق و تمنا میں کیا ملا
ہم بھی ملے تو درہم و برہم ملے تمہیں
john elia urdu poetry 2 lines
ہماری ہی تمنّا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنّا کیوں کریں ہم
ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر
سوچتا ہوں تیری حمایت میں
تری بانہوں سے ہجرت کرنے والے
نئے ماحول میں گھبرا رہے ہیں
تم کو اپنایا تھا تم کو چھوڑ بھی سکتا ہوں میں
بت بناتا ہی نہیں ہوں توڑ بھی سکتا ہوں میں
کوئی بھی دل ربا و دل بر ہو
دل سے بڑھ کر حسیں نہیں ہوت
تو قیامت کا بے مروت ہے
میں ترا ہمنشیں نہیں ہوتا
دل سے بس ایک بات کہہ دیجیو
دل کا چاہا ہوا نہیں ہوتا
وعدہ بے میعاد تھا اس کا اور رہی تھی رات بہت
یوں سمجھو وصلت ایسی تھی رات کی فرقت رات گئے
جانے کن اندھیروں میں تم نے چھاؤنی کی ہے
تم اجڑنے والے تو خواب تھے اجالوں کے
زندگی کا تھا اپنا عیش مگر
سب کی سب امتحان میں گزری
دل کی ہر بات دھیان میں گزری
ساری ہستی گمان میں گزری
دید حیران اس گلی میں ہے
کیا عجب شان اس گلی میں ہے
سارے رشتے تباہ کر آیا
دل برباد اپنے گھر آیا
john elia poetry in urdu text
تیری خلوت سے میں اس بار نہ واپس آؤں
تو مجھے دل میں ہی رکھ لیجیو جاناں اب کےہاں یہ جہاں نہیں دل و دانش کا ہاں نہیں
اب اس جہاں کو زیر و زبر چاہتا ہے دلرنگ سرشار ہیں در و دیوار
اس کی انگڑائی تو کمال کی ہےبیر مرہم سے جس قدر ہے مجھے
ہوس اتنی ہی اندمال کی ہےمیر مجلس کو جو قبول نہیں
ساری مجلس اسی خیال کی ہےصبح نو کی شفق تو دیکھ ذرا
یہ جھلک اس کی سرخ شال کی ہےتو مجھ کو مجھ سے روک رہا ہے کمال ہے
منظر تو رک کے دیکھ لوں اپنے زوال کاپھر گوارا ہے مجھے عشق کی ہر اک مشکل
تازہ پھر شیوۂ فرہاد کیا ہے میں نےمیرا اپنا طور عجب تھا ورنہ اس کے کوچے میں
میرے سوا سارے ہی ہنر ور کتنے مالا مال ہوئےطاری ہوا ہے لمحہ موجود اس طرح
کچھ بھی نہ یاد آئے اگر یاد کچھ کروںاب ہم کسی کو اپنی روداد کیا سنائیں
اک عمر دل میں رہ کر اک دن وہ گھر نہ آیاویسے میں ہوش میں ہوں پر مجھ کو غمگسارو
تم ہوش میں نہ لاؤ جب چارہ گر نہ آیاتم دیکھتے ہو میرا کیا حال ہو گیا ہے
پر میرے دیکھنے کو وہ بے خبر نہ آیازلف کو اس کی بھلا مجھ سے شکایت کیوں ہے
جو پریشاں تھا اسے میں نے پریشاں لکھاآپ ملتے نہیں ملا کیجیے
کیا میں یہ بات دل سے کہتا ہوںدشمنوں تم کو خوف کس کا ہے
مار ڈالو کہ میں اکیلا ہوںیہ تو عالم ہے خوش مزاجی کا
گھر میں ہر شخص سے الجھتا ہوںکر رہا ہوں میں عمرفن برباد
لوگ کہتے ہیں کام کرتا ہوںتمہیں ہم سے ملے گا کیا مگر ہم پھر تمہارے ہیں
ہماری قدر جانو اور یونہی بیکار آ نکلوتمہیں معلوم ہے ہم تو نہ آنے کے نہ جانے کے
تڑپتا ہے تمہیں جی دیکھنے کو یار آ نکلوبیوفائی کا کچھ تو لیں بدلہ
کوئی الزام اس پہ دھر چلیےاک عجب لہر جی میں آئی ہے
اس کی بانہوں میں جا کے مر چلیےشوق کی راہ پر اگر چلیے
چار جانب سے بے خبر چلیےوہی دیوار ہے اپنی وہی در ہے در پیش
کیسے ٹھیروں میں یہاں پھر وہی گھر ہے درپیشتو میاں دل کو اندر آ کے دیکھ
یوں کرائے پہ گھر نہیں اٹھتےشہر سے جبر اٹھے گا کیسے بھلا
اٹھتے ہیں لوگ پر نہیں اٹھتےپی کے آیا تھا میں پھر ساتھ تمہارا بھی دیا
میکشو تم کہ ہو کم نوش مرے ساتھ رہوکیا خبر راہ میں مجھ سے کوئی سر ٹکرا دے
ہوں گے کچھ اور بھی مدہوش مرے ساتھ رہوپوچھ نہ وصل کا حساب حال ہے اب بہت خراب
رشتہ جسم و جاں کے بیچ‘ جسم حرام ہو گیاجو عطا ہو وصال جاناں کی
وہ اداسی کمال کی ہوگیتھی جو خوشبو صبا کی چادر میں
وہ تمہاری ہی شال کی ہوگییہ نہ پوچھو بچھڑ کے تم سے مجھے
کتنے برس اس کا غم رہا جاناںشہر تعبیر ہو گیا آباد
خواب برباد ہو گیا جاناںتم ہو آغوش میں مگر پھر بھی
دل نہیں لگ رہا مرا جاناںغیر کے دل میں گر اترنا تھا
میرے دل سے اتر گئے ہوتےاجتہاد جنوں سے کیا پایا
سب جدھر تھے ادھر گئے ہوتےزندگی سے بہت بدظن ہیں
کاش اک بار مر گئے ہوتےآپ ملتے نہیں ہیں ملیے تو
اس قدر کیوں برائی کی ٹھیریہم حسینوں میں نا قبول ہوئے
سو میاں پارسائی کی ٹھیریکیا تم کو اس حال میں بھی
میں دنیا کا لگتا ہوںاس سے گلے مل کر خود کو
تنہا تنہا لگتا ہوںآئینوں کو زنگ لگا
اب میں کیسا لگتا ہوںاب تو دل ہی بدل گیا اب تو
ساری دنیا بدل گئی ہو گیاک جہنم ہے میرا سینہ بھی
آرزو کب کی گل گئی ہو گیشاخ امید جل گئی ہوگی
دل کی حالت سنبھل گئی ہوگیجدائی جو کبھی تھی اک عذاب جاودان جاں
گلہ یہ ہے وہی دل کی سہولت ہو گئی آخرکمینے ہو گئے جذبے ہوئے بدنام خواب اپنے
کبھی اس سے کبھی اس سے محبت ہو گئی آخرکوئی بتاؤ کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے
وہ جان جاں تھا مگر ہم تو اب بھی جیتے ہیہار کر اس سے اس کی گردن میں
میں نے ہی بڑھ کے ہار ڈالا ہےاب تو مدتوں سے شب و روز روبرو
کتنے دن گزر گئے دیدار کو ترےجسم و جاں کو تو بیچ ہی ڈالا
اب مجھے بیچنی ہے لاش اپنیمیں تم کو بھول جاؤں بھولنے کا دکھ نہ بھولوں گا
نہیں ہے کھیل یہ آسان میرا جی نہیں لگتاجہاں ملتے تھے ہم تم اور جہاں مل کر بچھڑتے تھے
نہ وہ در ہے نہ وہ دالان میرا جی نہیں لگتانظر حیران دل ویران میرا جی نہیں لگتا
بچھڑ کے تم سے میری جان میرا جی نہیںیہ وقت کے صحرا میں بھٹکتے ہوئے راہی
منزل پہ چلے آئے ہیں منزل کے نہیں ہیںبے نام و نشاں زخم ہیں سینے میں ہمارے
کچھ وار ہوئے ہیں جو مقابل کے نہیں ہیںدے مال ہم کو مفت ہم اصحاب کہف ہیں
سکہ ہمارے دور کا چلتا کہیں نہیںحالت کی بے ترکیبی نے دل کو کہیں کا بھی نہ رکھا
دل میں ہنسنا لب پر رونا الجھے اور الجھا بیٹھےگلہ کر اب بچھڑنے میں ہمارے
میری جان کوئی دشواری نہیں ہےکیا طور اب گلے کا کریں اختیار ہم
اک طور بے طرح ہے کہ فرقت گزر میں ہےعجب ناقدر ہے وہ شخص اپنا
مجھے کہنا پڑا ہر اک سے مت ملکچھ ایسے بھی ہیں جن سے تو ملا کر
مرا کہنا ہے کیا ہر اک سے مت ملنہ جانے کون کن اطوار کا ہو
ہے میرا مشورہ ہر اک سے مت مل
john elia ghazal in urdu
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
ثابت ہوا سکون دل و جاں نہیں کہیں
رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی
ترک تعلقات کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے کوئی
دیوار جانتا تھا جسے میں وہ دھول تھی
اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اگلتا پھرے کوئی
اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں
آخرمیرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
جون ایلیا
جب تری جان ہو گئی ہوگی
جان حیران ہو گئی ہو گی
شب تھا میری نگہ کا بوجھ اس پر
وہ تو ہلکان ہو گئی ہو گی
اس کی خاطر ہوا میں خوار بہت
وہ مری آن ہو گئی ہو گی
ہو کے دشوار زندگی اپنی
اتنی آسان ہو گئی ہو گی
بے گلہ ہوں میں اب بہت دن سے
وہ پریشان ہو گئی ہو گی
اک حویلی تھی دل محلے میں
اب وہ ویران ہو گئی ہو گی
اس کے کوچے میں آئی تھی شیریں
اس کی دربان ہو گئی ہو گی
کمسنی میں بہت شریر تھی وہ
اب تو شیطان ہو گئی ہو گی
جون ایلیا