Mohsin Naqvi poetry

Hey there, poetry lovers! Today, we’re diving into the magical world of mohsin naqvi poetry. Mohsin Naqvi was a big deal in Urdu poetry. He was born in Pakistan in 1947 and wrote some intense stuff about love, life, and all those big questions we think about.

So, let’s go on this journey together. We’ll explore Naqvi’s poems, feel all the emotions they stir up, and maybe learn something about ourselves along the way. It will be a poetic adventure you won’t want to miss!

mohsin naqvi poetry

ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی

کہاں ملے گی مثال میری ستم گری کی
کہ میں گلابوں کے زخم کانٹوں سے سی رہا ہوں

یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسن
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تری آنکھیں

mohsin naqvi poetry

تمہیں جب روبرو دیکھا کریں گے
یہ سوچا ہے بہت سوچا کریں گے

مری مصروف طبیعت بھی کہاں روک سکی
وہ تو یاد آتا ہے اس کو مرے دن رات سے کیا

چہرے بدل بدل کے مجھے مل رہے ہیں لوگ
اتنا برا سلوک میری سادگی کے ساتھ

mohsin naqvi poetry

اب اس سے ترک تعلق کروں تو مر جاؤں
بدن سے روح کا اس درجہ اشتراک ہوا

اب اس سے بڑھ کے کیا ہو وراثت فقیر کی
بچوں کو اپنی بھیک کے پیالے تو دے گی

یہ نقد جاں کہ اس کا لٹانا تو سہل ہے
گر بن پڑے تو اس سے بھی مشکل سوال کر

شمار اس کی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں

ہمارے جذبے بغاوتوں کو تراشتے ہیں
ہمارے جذبوں پہ بس تمہارا نہیں چلے گا

بخشا ہے جس نے روح کو زخموں کا پیرہن
محسن وہ شخص کتنا طبیعت شناس تھا

مرے گھر کا دریچہ پوچھتا ہے
میں سارا دن کہاں پھرتا رہا ہوں

وفا کی کون سی منزل پہ اس نے چھوڑا تھا
کہ وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے

بڑھا رہی ہیں مرے دکھ نشانیاں تیری
میں تیرے خط تری تصویر تک جلا دوں گا

تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا

mohsin naqvi poetry in urdu text

دل کا نگر اجاڑنے والا ہنر شناس
تعمیر حوصلوں کی عمارت بھی کر گیا

اتنا بے حس کہ پگھلتا ہی نہ تھا باتوں سے
آدمی تھا کہ تراشا ہوا پتھر دیکھا

پیاس یاروں کو اب اس موڑ پہ لے آئی ہے
ریت چمکی تو یہ سمجھے کہ سمندر دیکھا

چھو جائے ہوا جس سے تو خو شبو تیری آئے
جاتے ہوئے اک زخم تو ایسا مجھے دینا

دیر تک وہ خفا رہے مجھ سے
دور تک یہ خبر گئی ہوگی

پھر کون بھلا داد تبسم انہیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں

میرے حال پہ حیرت کیسی درد کے تنہا موسم میں
پتھر بھی رو پڑتے ہیں انسان تو پھر انسان ہوا

وہ اکثر دن میں بچوں کو سلا دیتی ہے اس ڈر سے
گلی میں پھر کھلونے بیچنے والا نہ آ جائے

صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خوددار ہوا کرتے ہیں

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

mohsin naqvi poetry in urdu

وہ اجنبی بن کے اب ملے بھی تو کیا ہے محسن
یہ ناز کم ہے کہ میں بھی اس کا کبھی رہا ہوں

بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے مگر قاتل نہیں ملتا

اب میرے تعارف سے گریزاں ہے تو لیکن
کل تک تری پہچان کا معیار بھی میں تھا

اک آشنا کے بچھڑنے سے کیا نہیں بدلا
ہوائے شہر بھی لگتی ہے اجنبی اب تو

چل پڑا ہوں میں زمانے کے اصولوں پہ محسن
میں اب اپنی ہی باتوں سے مکر جاتا ہوں

رزق ملبوس مکاں سانس مرض قرض دوا
منقسم ہو گيا انسان انہي افکار کے بيچ

مرے صبر پر کوئی اجر کیا مری دو پہر پہ یہ ابر کیوں
مجھے اوڑھنے دے اذیتیں مری عادتیں نہ خراب کر​

بچھڑا تو دوستی کے اثاثے بھی بٹ گئے
شہرت وہ لے گیا مجھے رسوائی دے گیا

mohsin naqvi sad poetry in urdu

وہ شخص تو نے جسے چھوڑنے میں جلدی کی
ترے مزاج کے سائے میں ڈھل بھی سکتا تھا

ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے
ہم وہ پتھر ہیں جو ہر دور میں بھاری نکلے

اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ

کیا کہوں گل ہے کہ شبنم وہ غزل ہے کہ غزال
تم نے دیکھا ہی نہیں اس کا سراپا یارو

آیا تھا شوق چارہ گری میں کوئی مگر
کچھ اور دل کے زخم کو گہرائی دے گیا

اسے پانا اسے کھونا اسی کے ہجر میں رونا
یہی گر عشق ہے محسن تو ہم تنہا ہی اچھے ہیں

ہم نے سچ بولنے کی جرات کی
تیرے بارے میں اور کیا کہتے

غیرت جاں کی بات تھی ورنہ
ہم ترے سامنے بھی چپ رہتے

mohsin naqvi ghazal

اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر

کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر

اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہوں گے
وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آ کر

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر

اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر

اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

محسن نقوی

روٹھا تو شہر خواب کو غارت بھی کر گیا
پھر مسکرا کے تازہ شرارت بھی کر گیا

شاید اسے عزیز تھیں آنکھیں میری بہت
وہ میرے نام اپنی بصارت بھی کر گیا

منھ زور آندھیوں کی ہتھیلی پہ اک چراغ
پیدا میرے لہو میں حرارت بھی کر گیا

بوسیدہ بادبان کا ٹکڑا ہوا کے ساتھ
طوفاں میں کشتیوں کی سفارش بھی کر گیا

دل کا نگر اجاڑنے والا ہنر شناس
تعمیر حوصلوں کی عمارت بھی کر گیا

سب اہل شہر جس پہ اٹھاتے تھی انگلیاں
وہ شہر بھر کو وجہ زیارت بھی کر گیا

محسن یہ دل کہ اس بچھڑتا نہ تھا کبھی
آج اس کو بھولنے کی جسارت بھی کر گیا

محسن نقوی

اتنی مدت بعد ملے ہو
کن سوچوں میں گم پھرتے ہو

اتنے خائف کیوں رہتے ہو
ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو

تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا
ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو

کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے
رات گئے تک کیوں جاگے ہو

میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں
تم دریا سے بھی گہرے ہو

کون سی بات ہے تم میں ایسی
اتنے اچھے کیوں لگتے ہو

پیچھے مڑ کر کیوں دیکھا تھا
پتھر بن کر کیا تکتے ہو

جاؤ جیت کا جشن مناؤ
میں جھوٹا ہوں تم سچے ہو

اپنے شہر کے سب لوگوں سے
میری خاطر کیوں الجھے ہو

کہنے کو رہتے ہو دل میں
پھر بھی کتنے دور کھڑے ہو

رات ہمیں کچھ یاد نہیں تھا
رات بہت ہی یاد آئے ہو

ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصے
اپنی کہو اب تم کیسے ہو

محسن تم بدنام بہت ہو
جیسے ہو پھر بھی اچھے ہو

محسن نقوی

Also, read another famous poetry:

meer taqi meer poetry

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here