parveen shakir poetry in urdu

Parveen Shakir poetry in Urdu

Welcome to a journey of Parveen Shakir poetry in Urdu! Parveen Shakir is a famous poet whose words have touched the hearts of many. Her poetry is like a beautiful painting that tells stories of love, longing, and life. Join me as we dive into the captivating verses of Parveen Shakir and discover the magic of her words.

Also read another amazing poetry:

parveen shakir poetry in urdu

تھک گیا ہے دل وحشی مرا فریاد سے بھی
جی بہلتا نہیں اے دوست تری یاد سے بھی

حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

خواب جل جائیں مری چشم تمنا بجھ جائے
بس ہتھیلی سے اڑے رنگ حنا آہستہ

پروین شاکر

parveen shakir poetry in urdu

ہوا سے سرکشی میں پھول کا اپنا زیاں دیکھا
سو جھکتا جا رہا ہے اب یہ سر آہستہ آہستہ

یہ کیا کہ وہ جب چاہے مجھے چھین لے مجھ سے
اپنے لئے وہ شخص تڑپتا بھی تو دیکھوں

کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھوں سے اس کی دلہن سجاؤں گی

یا خدا اب تو کوئی ابر کا ٹکڑا برسے
بچیاں لائیں ہیں گڑیوں کو جلانے کے لئے

جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی

کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح

تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں

parveen shakir poetry in urdu

کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں
میرے چہرے پہ ترا نام نہ پڑھ لے کوئی

جس طرح خواب مرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی

بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی
اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لئے

اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی

بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا
میں دل میں روؤں گی آنکھوں میں مسکراؤں گی

جو غم ملا ہے بوجھ اٹھایا ہے اس کا خود
سر زیر بار ساغر و بادہ نہیں کیا

پاس جب تک وہ رہے درد تھما رہتا ہے
پھیلتا جاتا ہے پھر آنکھ کے کاجل کی طرح

اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے

ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

صرف اس تکبر میں اس نے مجھ کو جیتا تھا
ذکر ہو نہ اس کا بھی کل کو نارساؤں میں

خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں
تری آواز کا چہرہ میں چھو کر دیکھ سکتی ہوں

کبھی کبھی وہ ہمیں بے سبب بھی ملتا ہے
اثر ہوا نہیں اس پر ابھی زمانے کا

دی تشنگی خدا نے تو چشمے بھی دے دیے
سینے میں دشت آنکھوں میں دریا کیا مجھے

میرا چہرہ ہے فقط اس کی نظر سے روشن
اور باقی جو ہے مضمون نگاری اس کی

وہ نرم لہجے میں کچھ تو کہے کہ لوٹ آئے
سماعتوں کی زمیں پر پھوار کا موسم

parveen shakir poetry in urdu two lines

اندھیرے میں تھے جب تلک زمانہ ساز گار تھا
چراغ کیا جلا دیا ہوا ہی اور ہو گئی

مٹا سکے گی اسے گرد ماہ و سال کہاں
کھنچی ہوئی ہے جو تصویر یار آنکھوں میں

کیا مرے دل اور کیا آنکھوں کا حصہ ہے مگر
چادر شب اس سے پہلے شبنمیں ایسی نہ تھی

اسی کوچے میں کئی اس کے شناسا بھی تو ہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے

ہم وہ شب زاد کہ سورج کی عنایات میں بھی
اپنے بچوں کو فقط کور نگاہی دیں گے

وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکل

پتھرایا ہے دل یوں کہ کوئی اسم پڑھا جائے
یہ شہر نکلتا نہیں جادو کے اثر سے

کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے

نہ جانے کون سا آسیب دل میں بستا ہے
کہ جو بھی ٹھہرا وہ آخر مکان چھوڑ گی

اس کا انداز سخن سب سے جدا تھا شاید
بات لگتی ہوئی لہجہ وہ مکرنے والا

کان بھی خالی ہیں میرے اور دونوں ہاتھ بھی
اب کے فصل گل نے مجھ کو پھول پہنایا نہیں

خفا اگرچہ ہمیشہ ہوئے مگر اب کے
وہ برہمی ہے کہ ہم سے انہیں گلے بھی نہیں

وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا

دن بہل جاتا ہے لیکن ترے دیوانوں کی
شام ہوتی ہے تو وحشت نہیں دیکھی جاتی

ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اس کی
اور یہ دل کہ اسے حد سے سوا چاہتا ہے

میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے

دل کا کیا ہے وہ تو چاہے گا مسلسل ملنا
وہ ستم گر بھی مگر سوچے کسی پل ملنا

parveen shakir poetry in urdu text

وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے

بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے

اور کچھ پل اس کا رستہ دیکھ لوں
آسماں پر ایک تارہ اور ہے

خوش بو کہیں نہ جائے پہ اصرار ہے بہت
اور یہ بھی آرزو کہ ذرا زلف کھولیے

دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون

خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے
وہ رویّہ جو ہوا كا خس و خاشاک سے ہے

اس ترک رفاقت پہ پریشاں تو ہوں لیکن
اب تک کے ترے ساتھ پہ حیرت بھی بہت تھی

اس کی مٹھی میں بہت روز رہا میرا وجود
میرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرے

فنا فی العشق ہونا چاہتے تھے
مگر فرصت نہ تھی کار جہاں سے

یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اس سے مگر
جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا

یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن
شیلف میں رکھی ہوئی بند کتابوں کی طرح

دل کو اس راہ پہ چلنا ہی نہیں
جو مجھے تجھ سے جدا کرتی ہے

اب تک جنوں ہی اپنا اثاثہ رہا مگر
تجھ سے ملے تو صاحب ادراک ہو گئے

اب تک جنوں ہی اپنا اثاثہ رہا مگر
تجھ سے ملے تو صاحب ادراک ہو گئے

کار جہاں ہمیں بھی بہت تھے سفر کی شام
اس نے بھی التفات زیادہ نہیں  کیا

parveen shakir best poetry in urdu

مرنے اگر نہ پائی تو زندہ بھی کب رہی
تنہا کٹی وہ عمر جو تھی تیرے ساتھ کی

شام بھی ہو گئی دھندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بھولنے والے میں کب تک ترا رستا دیکھوں

اس کے یوں ترک محبّت کا سبب ہو گا کوئی
جی نہیں مانتا وہ بے وفا پہلے سے تھ

ورنہ یہ تیز دھوپ تو چبھتی ہمیں بھی ہے
ہم چپ کھڑے ہوئے ہیں کہ تو سائباں میں ہے

میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی

وہ میرے پاؤں کو چھونے جھکا تھا جس لمحے
جو مانگتا اسے دیتی امیر ایسی تھی

میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی
وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا

وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

بیٹھے رہیں گے شام تلک تیرے شیشہ گر
یہ جانتے ہوئے کہ خسارہ دکاں میں ہے

اک تخت اور میرے برابر وہ شاہ زاد
لگتا ہے آج رات میں شہر سبا میں ہوں

دل کی بربادی کا کوئی سلسلہ پہلے سے تھا
اس چراغ شب پہ الطاف ہوا پہلے سے تھ

مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی
تمہاری یاد کے نام انتساب کر دے گا

parveen shakir ghazal

کھلے گی اس نظر پہ چشم تر آہستہ آہستہ
کیا جاتا ہے پانی میں سفر آہستہ آہستہ

کوئی زنجیر پھر واپس وہیں پر لے کے آتی ہے
کٹھن ہو راہ تو چھٹتا ہے گھر آہستہ آہستہ

بدل دینا ہے رستہ یا کہیں پر بیٹھ جانا ہے
کہ تھکتا جا رہا ہے ہم سفر آہستہ آہستہ

خلش کے ساتھ اس دل سے نہ میری جاں نکل جائے
کھنچے تیر شناسائی مگر آہستہ آہستہ

ہوا سے سرکشی میں پھول کا اپنا زیاں دیکھا
سو جھکتا جا رہا ہے اب یہ سر آہستہ آہستہ

مری شعلہ مزاجی کو وہ جنگل کیسے راس آئے
ہوا بھی سانس لیتی ہو جدھر آہستہ آہستہ

پروین شاکر

جلا دیا شجر جاں کہ سبز بخت نہ تھا
کسی بھی رت میں ہرا ہو یہ وہ درخت نہ تھا

وہ خواب دیکھا تھا شہزادیوں نے پچھلے پہر
پھر اس کے بعد مقدر میں تاج و تخت نہ تھا

ذرا سے جبر سے میں بھی تو ٹوٹ سکتی تھی
مری طرح سے طبیعت کا وہ بھی سخت نہ تھا

مرے لیے تو وہ خنجر بھی پھول بن کے اٹھا
زبان سخت تھی لہجہ کبھی کرخت نہ تھا

اندھیری راتوں کے تنہا مسافروں کے لیے
دیا جلاتا ہوا کوئی ساز و رخت نہ تھا

گئے وہ دن کہ مجھی تک تھا میرا دکھ محدود
خبر کے جیسا یہ افسانہ لخت لخت نہ تھا

Also read another amazing post:

best friend poetry

teacher poetry in urdu

 

Leave a Comment